چھوڑو سب ،آؤ ٹی وی دیکھو۔۔منور حیات سرگانہ

میں ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوں،آرام دہ کاؤچ پر دراز ،میں نے پاؤں لمبے کر کے سامنے والی میز پر رکھے ہوئے ہیں۔
میرے دائیں ہاتھ پر ٹی وی کا ریموٹ دھرا ہے،اور بائیں ہاتھ پر  سنیکس کا بڑا سا پیکٹ،جس میں پاپ کارن ہیں، اور ساتھ میری پسندیدہ کولڈ ڈرنک ،سامنے دیوار پر لگی بڑی  سکرین پر ایک نیوز چینل پر کسی احتجاج اور مار دھاڑ،جلاؤ اور گھیراؤ کی خبریں چل رہی ہیں۔ایک زخمی شخص جس کے سر سے خون بہہ رہا ہے،اس نے سر پر اپنے دونوں ہاتھوں سے ایک سفید رنگ کے کپڑے کو رکھ کر دبایا ہوا ہے،اور کچھ پولیس والے اسے پکڑ کر اور کچھ دھکیلتے ہوئےکیمروں کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔
میں ایک گھونٹ اپنی کولڈ ڈرنک سے لیتا ہوں، اور کاہلی سے ریموٹ اٹھا کر چینل تبدیل کر دیتا ہوں۔
اگلا چینل،
ہسٹری چینل،
سکرین پر ایک بلیک اینڈ وہائیٹ منظر ،ایک نحیف شخص   بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر آواز پاٹ دار ہے۔۔
’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
میں پھر چینل تبدیل کر دیتا ہوں۔

دیندار چینل،
ایک کمشنر آفس کا منظر ہے،ایک کمزور سی خاتون کو کٹہرے میں لایا گیا ہے،جو کہ کسی تعلیمی ادارے کی استاد معلوم ہوتی ہے،لیکن نہیں ،یہ اسسٹنٹ کمشنر اٹک جنت حسین نیکو کارہ ہیں۔ جن کی سی ایس ایس کے امتحان میں اپنے بیج میں تیسری پوزیشن تھی ۔ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار ۔ان پر الزام ہے کہ اس نے مسلمان،شیعہ ،سنی اور غیر مسلم احمدیوں کا نام مسلمانوں کے ساتھ ملا کر کیوں لیا ہے،انہیں غیر مسلموں سے بھی الگ شدید غیر مسلم اور قادیانی کافر کیوں نہیں کہا ہے۔ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے انسانی حقوق کے دن کے حوالے سے کسی تعلیمی ادارے میں منعقد ہونے والی تقریب میں اپنی تقریر کے دوران اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی بات کی، اور آپسی بھائی چارہ بنائے رکھنے کی بات کی۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے احمدیوں کے ساتھ اتحاد  بنانے کی بات کی ہے،تاکہ بیرونی دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ارے کاہے کی یونٹی ؟ہم مسلمان ،وہ کافر،کافر بھی سب سے بڑھ کر ۔ان خاتون کی اس گستاخی کو اس  سکول کے بچوں اور موقع پر موجود سب لوگوں نے سخت ناپسند کیا،اور اس پر شدید برہم ہیں،اور  سکول کے  بچے بھی ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں خاتون اسسٹنٹ کمشنر پر سخت جرح کر رہے ہیں۔اس کے بعد اس کی صفائیاں قبول نہیں  کی جا رہی ہیں،بلکہ پہلے اقرار جرم کروایا جاتا ہے،پھر اپنے کہے پر معذرت کروائی جاتی ہے اور اس کے بعد اس کا تجدید ایمان کروایا جاتا ہے۔

میں پھر چینل تبدیل کر دیتا ہوں۔
دھارمک ٹی وی،
یہ بھارتیہ ریاست بہار کے ایک شہر کا منظر ہے،رات کا وقت ہے،ایک نڈھال نوجوان کو کھمبے سے باندھا گیا ہے،اس نوجوان کا نام تبریز انصاری ہے،اس پر موٹر سائیکل چوری کرنے کا الزام ہے۔اس کے ارد گرد ایک ہجوم اکٹھا ہے ۔ہجوم میں سے وقفے وقفے سے لوگ آگے آتے ہیں،اور اسے لاتیں گھونسے،مکے ،تھپڑ اور ڈنڈے مارتے ہیں،اور اس سارے عمل کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔

ہجوم میں سے ایک نوجوان آگے بڑھتا ہے ،اور اسے زور سے ڈنڈا رسید کرتے ہوئے کہتا ہے،
بولو ‘جے شری رام’
وہ نوجوان نقاہت سے بمشکل سر اٹھا کر یہ الفاظ ادا کرتا ہے۔اور اس کا سر نقاہت سے نیچے ڈھلک جاتا ہے۔دوسرا نوجوان اس کے بالوں کو مٹھی میں پکڑ کر اس کے لہولہان چہرے کو اوپر اٹھا کر اسے کہتا ہے،بول ‘جے ہنومان’
وہ زخمی آہستہ سے ‘جے ہنومان’ کہتا ہے۔
اتنے میں پیچھے سے اسے ایک زور دار لات پڑتی ہے،اور آواز آتی ہے ،زور سے بولو،
‘جے شری رام’
اب اس نوجوان میں بولنے کی سکت باقی نہیں بچی۔
میں  سنیکس کے پیکٹ سے پاپ کارن نکال کر منہ میں ڈالتا ہوں اور چینل تبدیل کر دیتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابلیس ٹی وی،
اب آپ آزاد ہیں۔
اگر آپ پولیس والے ہیں تو کسی کو گولی مار دیں،
آپ ڈاکٹر ہیں تو کسی کی کھال اتار دیں،
آپ وکیل ہیں تو کسی کا سر پھاڑ دیں،
آپ ملاوٹ کریں،جعل سازی کریں،بلیوں اور کتوں کا گوشت بیچیں،لوگوں کو زہر کھلائیں،لوٹیں، لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے کریں۔
آپ رشوت لیں،کسی کا حق ماریں،بچیوں کا  ریپ کریں،بچوں کے ساتھ  زیادتی کریں،فرقہ واریت پھیلائیں ،دہشت گردی کریں ،کسی کے ساتھ فراڈ کریں کسی کو قتل کریں۔آپ جو بھی ہیں،اور جو بھی جرم کرنا چاہیں ریاست کا آپ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply