التوہاد پہاڑ، لیلی وقیس کی محبت کے گواہ۔۔منصور ندیم

کچھ ماہ پہلے ایک سعودی مقامی جریدے “سیدتی میگزین” میں “التوباد پہاڑ قیس اور لیلی کے پیار کی کہانی کا گواہ”٫ کے عنوان سے ایک مضمون پبلش ہوا، اس پبلش ہونے والے مضمون کے مطابق دنیا بھر کے مورخ اور ادیب اس بات پر متفق ہیں کہ لیلی اور قیس کے پیار کا قصہ ماضی کا سب سے مقبول اور منفرد واقعہ ہے۔

لیلی اور قیس کی محبت کی کہانی، محبت کی بین الاقوامی داستانوں کا اٹوٹ حصہ ہے۔ جس طرح مغرب میں رومیو اور جولیٹ کی محبت کا قصہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ جامعہ ازہر شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے۔ یہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے جو عرب کے نجد کے علاقے میں رونما ہوا اور لازوال بن گیا۔

التوباد پہاڑ لیلی اور قیس کے لازوال پیار کی کہانی کے گواہ ہیں اور یہ پہاڑ اس وقت سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے 300 کلومیٹر جنوب میں واقع الافلاج شہر ملک کے مشہور علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ مقام قدیم زمانے سے ہی قدرتی چشموں کے لیے معروف ہے۔ اس کا مرکزی مقام ’لیلی‘ ہے۔ نخلستانوں اور زرعی فارموں سے آباد یہ علاقہ تاریخی ورثے کا بھی امین ہے۔

الافلاج کمشنری میں کئی قابل دید تاریخی مقامات، قدیم قریے اور محل ہیں۔ اس کی کوئی وادی یا میدانی علاقہ ایسا نہیں جہاں کوئی محل نہ ہو یا نخلستانوں اور درختوں سے متصل کوئی مضبوط قلعہ نہ ہو یا کوئی بڑی سی بستی نہ ہو۔ آج بھی یہ محل الافلاج کی وادیوں میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ یہاں کے قابل دید تاریخی مقامات میں سلمی محل، مرغم قلعہ، جعدۃ محل اور العادی محل قابل ذکر ہیں۔

الافلاج کے دارالحکومت کا نام قدیم عربی تاریخ کے مشہور ترین قصے کے کردار لیلی العامریہ اور قیس بن الملوح سے ماخوذ ہے۔ لیلی اور قیس کا قصہ نہ صرف یہ کہ قدیم عربی ادب کا مشہور ترین قصہ ہے۔ عالمی ادب میں بھی لیلی اور قیس کی محبت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ پہاڑ الغیل قریے میں موجود ہے اس پہاڑ میں ایک غار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قیس لیلی سے اسی غار میں آکر ملا کرتا تھا ۔ اس غار کو دیکھنے لوگ دور دور سے آتے ہیں اور اس کے پتھروں پر اپنا نام لکھتے ہیں۔ لیلی اور قیس کی کہانی کا دنیا کی اہم زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اس پر ناول اور کہانیاں قلمبند کی جاچکی ہیں۔

لیلی اور قیس کی کہانی نے عالمی ادب کو کافی متاثر کیا ہے- اس کے اثرات فرانسیسی، سپینی، انڈین اور مختلف زبانوں کے ادب پر نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سپین کے ٹروباڈور شعرا نے محبت کے اس لازوال قصے کو اشعار کے جامع میں نظم کرکے گایا ہے۔ ان دونوں کے پیا رکے بارے میں کئی ڈرامے تصنیف کیے گئے- ان میں مشہور ترین قیس و لیلی ڈرامہ ہے۔ اس کے باوجود قدیم عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کے قصے کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا وہ مستحق تھا۔ کسی شاعر یا ادیب نے اس کو اپنے تخلیقی کام کا موضوع بنا کر اس کو ادبی جامہ نہیں پہنایا۔ اس پر صرف اتنا کام ہوا کہ اسے تاریخ ادب کی کتابوں میں درج کر دیا گیا۔

ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری اپنی کتاب ’’لیلیٰ مجنوں – عربی، فارسی اور اردو شاعری میں‘‘ لکھتے ہیں کہ مجنوں کا نام قیس تھا اور وہ ایک مالدار نجدی قبیلے بنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہ ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا۔ شاعر تھا۔ لیلیٰ جس کی محبت میں وہ مجنوں کہلایا، قیس ہی کے قبیلے کی ایک لڑکی تھی۔ مہدی بن سعد اس کا باپ تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔

قیس نے اپنے اشعار میں اس کی یوں تعریف کی ہے۔ ’’وہ ایک چاند ہے جو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے، وہ نہایت حسین ہے۔ اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت نہیں۔‘‘ کتاب الاغانی کی ایک روایت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم لکھتے ہیں۔ ’’ایک مرتبہ لیلیٰ نے اپنی پڑوسن کو قسم دے کر پوچھا، سچ بتا وہ جو مرے حسن کی اس قدر تعریف کرتا ہے، سچی تعریف ہے یا جھوٹی‘‘ پڑوسن نے جواب دیا کہ ’’وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتا۔ تم ویسی ہی صاحب جمال ہو جیسا کہ قیس کہتا ہے۔‘‘

’’کتاب الاغانی‘‘ جس کے مصنف ابوالفرج اصفہانی ہیں، لیلیٰ مجنوں کے قصے میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس قصے کی زبان سے زیادہ تفصیلات اسی میں پہلی مرتبہ سامنے آئیں۔ امام جاحظ نے بھی قیس کا ذکر کیا ہے عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کا قصہ یہ ہے کہ بچپن میں قیس اور لیلیٰ دونوں اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے تھے۔ وہ ساتھ بیٹھتے اور آپس میں باتیں کرتے۔ اس دوران انھیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔ جب یہ دونوں بڑے ہوئے اور شباب کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کی باہمی دلچسپی روز بہ روز بڑھنے لگی۔ اور ان کے ملنے کا مقام یہی توہاد پہاڑ تھے جہاں مجنوں بکریاں چراتا تھا، پھر لیلیٰ پر پردہ کی پابندی لگ گئی۔ لیلیٰ کے پردے میں چلے جانے سے ملنا جلنا ختم ہوا۔ اس سے قیس کا اضطراب بڑھنے لگا اور محبت میں شدت آ گئی۔ قیس چوں کہ خوش بیان شاعر تھا اس لیے لیلیٰ کا ذکر اپنے اشعار میں کرنے لگا۔ جس سے لیلی کی بدنامی ہونے لگی تب قیس کے ماں باپ کو فکر ہوئی۔

وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا۔ لیلیٰ کے ماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اور انھوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔ قیس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھا کہ واپسی ممکن نہ تھی۔ رفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائے اور بیت اللہ کی پناہ میں دعا مانگے۔ قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰ اور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔ اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔

اس دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا، لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا۔ لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔ جب لیلی کے اہل خانہ نے اس کی شادی کردی، جب قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بے تابی اور بے قراری بڑھ گئی۔ اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔ نہ کھانے کی پرواہ نہ کپڑوں کی۔ گوشہ نشین ہو گیا اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔ لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔ اسی حال میں ایک دن اس کی نظر ایک ہرنی پر پڑی۔ وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔ آخر کچھ دن بعد قیس ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر ابراہیم المصری لکھتے ہیں ’’جہاں تک اس قصے کے ہیرو کا تعلق ہے تو وہ ایسے شاعر ہیں جن کو صحرا کے باسی ہونے کی وجہ سے انتہائی اعلیٰ درجے کی ذکاوت طبع اور وسعت خیال حاصل تھی۔ قیس ایک حساس اور رقیق القلب شاعر تھا اور بعض روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا۔ قیس کے لاتعداد اشعار ملتے ہیں، اور توباد پہاڑ کی شان میں بھی قصیدہ ملتا ہے۔ بہرحال قیس کے اشعار عربی ادب کا شاہکار مانے جاتے ہیں۔ لیلی اور قیس کے علاوہ بھی الافلاج نے بہت سے نامور نام پیدا کیے ہیں، بہر حال “التوہاد پہاڑ” آج بھی قیس و لیلی کی داستان محبت سناتے نظر آتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply