اردو ادب اور نسل نو۔۔۔عبدالروف خٹک

ہم اپنے بچپن میں سنتے آئے تھے کہ انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ہے ،یعنی اس کی زبان ہی اس کی اخلاقی گراوٹ کا پتا دیتی ہے کہ وہ کس قبیل کا بندہ ہے ، اور بچپن میں ہی ان بنیادوں پر ہماری تربیت استوار کی گئی کہ کبھی بھی اونچی آواز میں بات نہیں کرنی ،لب ولہجے میں سختی نہیں لانی ،کسی کو مجلس میں اپنے سے نیچے مت گرداننا ،ہر اک کو عزت دو ،
وقت گزرتا گیا یہ باتیں ماضی کا حصہ اور قصہ پارینہ بن گئی ، لیکن دماغ سے  محو  نہ ہوئیں ،
ہم نے معاشروں کو بنتے بگڑتے دیکھا ،اخلاقیات کے جنازے نکلتے بھی دیکھے اور اخلاقیات کو معاشرے میں پھلتے پھولتے بھی دیکھا ،علم اور تہذیب کے گراں قدر خزینے اور نمونے تو جا بجاء بکھرے دیکھے لیکن ان خزینوں سے ادب و گوہر کے جواہر سے فیضیاب کوئی نہ ہوا،
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ اک ایسا نازک دور ہے جہاں ادب اخلاق اور اس سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی گہنے اور لوازمات ہیں وہ سب اس وقت ناپید ہیں ،
جن نرسیوں کا یہ کام تھا آج وہاں کچھ اور سکھایا جارہا ہے ، گھر جسے ادب کی نرسری سمجھا جاتا تھا اور ماں ہی کو اخلاقی تربیت کا استاد گردانا جاتا تھا ،وہ ماں اب اپنے بچوں کی تربیت لوریوں کہانیوں اور ڈراموں سے کرتی ہے ،
سنا تھا کہ ہمارا گہنہ ہمارا ادب ہے ،لیکن ادب کو اب ہم کوسوں دور چھوڑ آئے ہیں ،آج ہم جس ماحول سے گزر رہے ہیں وہاں ادب کو اب زنگ لگنے کو ہے ،
ہم جو کبھی ادب کا گہوارہ سمجھے جاتے تھے ،اب وہاں شورو غوغا کے ڈیرے ہیں ،
یقین جانیے ہمارے یہاں ادب کا یہ حال اور کمال تھا کہ کوٹھوں پر بیٹھنے والیاں بھی ادب کو اپنا زیور سمجھتی تھیں ، اب تو ادب کا یہ حال ہے کہ شریف شرفاء بھی منہ سے جھاگ اڑانے کو تیار رہتے ہیں ،
حقیقت یہ ہے کہ ہم سے ادب کی  آبیاری ہو ہی نہ سکی اس کا  ذمہ دار کون ؟ شائد اس کا جواب تو کوئی نہ دے سکے ،لیکن ہم اپنا اثاثہ بہت دور چھوڑ آئے ہیں ،
آج ہمارا ادب صرف کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ،اب یہ راہ چلتے ، چبوتروں پر بیٹھے لوگوں کی زبانوں پر زبان زد عام نہیں رہا ،اب اس کی گونج صرف کاغذوں میں رہی جو اک بہت بڑا المیہ ہے ،
یہ وہ قوم ہے جس کے اجداد ادب کو اپنی میراث سمجھتے تھے ، آج اسی اجداد کی اولاد ادب کی دھجیاں اڑاکر بے ادبی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ،آج ہمارے ڈرامے ہوں یا اسٹیج شوز یا فلمیں ہوں یا دوسرے موضوعات ، یقین جانو اخلاقیات کا ایسا جنازہ نکالا جاتا ہے کہ ادب بھی شرماجائے،
ادب کا یہ حال ہے کہ اگر کسی سے دو خوبصورت بول بول دئیے تو وہ اگلے ہی لمحے آپ کو ادبی کیڑا اور آپ جناب کے القاب سے نوازنا شروع کردیگا ، یہ تو چھوڑیں المیہ یہ ہے کہ میرا اک دوست جب اپنے بچوں کو اک پرائیویٹ اسکول میں داخل کرانے گیا ،جب بچوں کے اسمائے گرامی پوچھے گئے وہاں کی پرنسپل کی جانب سے تو بچوں کے والد نے اپنے بچوں کے نام بالترتیب بتائے ،تمام بچوں کے نام کے آخر میں معاویہ کا صیغہ لگا تھا ،جس پر پرنسپل نے بچوں کے والد سے کہا کہ معاویہ ان کی کاسٹ ہے ،جس پر بچوں کے والد نے کہا کہ یہ کاسٹ نہیں آپ کی کم علمی ہے کہ آپ اک صحابی کا نام تک نہیں جانتی ،
ادب تو ادب ہم علم سے بھی عاری ہیں ،  انٹر ،بی اے پاس بھی اردو ادب کی کوئی جانکاری نہیں رکھتے ، حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اپنے بزرگوں کے ںارے میں بھی کوئی جانکاری نہیں ،
افسوس کہ ہم تعلیم کی بات تو کرتے ہیں کہ علم سب کے لئیے ،لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہمارا تعلیمی  معیار کیا ہو ؟ ہم انھیں کس نصاب سے روشناس کرائیں ، یہاں تو معیار تعلیم بھی بٹ چکا ہے ،
اب بھی وقت ہے ہمیں اردو ادب کی طرف توجہ دینی ہوگی ورنہ آنے والے وقتوں میں ہم اپنا قیمتی اثاثہ کھو دیں گے ، ہمیں اپنے بچوں میں ادبی قلابازیاں کہیں سے بھی نظر نہیں آرہیں ،
ان نوجوانوں کا  حال یہ ہے کہ  اگر مزاح پڑھنے کے لئیے پطرس دو تو نہیں پڑھتے ،جو تھوڑی ںہت سمجھ بھی آجاتی ہے ،
لیکن اگر منٹو کا رسالہ ھاتھ میں پکڑا دیا تو پھر اپنا سارا ادب وہیں نچوڑ دیتے ہیں ، یہ تو حال ہے اس نسل کا ،
ہمارے اسلاف کے ذخیرے کا اللہ ہی حافظ ہو ۔
ان تلوں میں وہ تیل نظر نہیں آتا۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply