میرےنزدیک کسی بھی قسم کا واقعہ، حادثہ، یا تخلیق کی اہم اور بڑی خوبی کوئی بنتی ہے تو وہ یہی ہے کہ یہ واقعہ یا تخلیق پڑھنے یا سننے والے کو متحرک کردے کہ میرے جیسے شخص کے لیے یہی زندہ رہنے کاجواز ہے۔
تو آئیے ۔آج آپ کوچندزندہ رہنے والے واقعات سناتا ہوں ۔
البرٹ آئن سٹائن ایک یہودی سائنس دان تھا ،اسرائیل کے پہلے صدر کے اانتقال کے بعد 1952 میں آئن سٹائن کو اسرائیل کی صدارت کا عہدہ پیش کیا گیا مگر اس نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار رکر دیا،اس نے امریکہ میں مقیم اسرائیلی سفیر ابا بیان سے کہا” میں فطرت کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں اور انسان کے بارے میں تو بمشکل کوئی چیز معلوم ہے۔میں اسرائیل کی طرف سے اس پیشکش سے بہت متاثر ہوں ،اور اسی کے ساتھ مجھے افسوس اور شرمندگی بھی ہے،کہ میں اس کو قبول نہیں کرسکتا ہوں ،میں زندگی پبھر دوسری چیزوں پر کام کرتا رہا ہوں اس لیے میں عوام سے درست طور پر معاملہ کرنے اور سرکاری امور کو برتنےکی فطری استعبداد اور تجربہ دونوں سے محروم ہوں ،میری بڑھتی ہوئی عمر نے میری قوت کو متاثر نہ کیا ہوتا تب بھی تنہاان وجوہ سے میں اس اعلی کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے غیر موزوں تھا”۔
ایک اور چین کا نامور فلسفی کنفیوشش اپنے شاگردوں کےس اتھ کسی پہاڑی پر سفر پر جارہا تھا کہ انہوں نے ایک جگہ ایک عورت کو زار وقطار روتے دیکا ،دریافت کرنے پر عورت نے بتایا کہ اس مقام پر اس کے جوان بیٹے کو شیر چیر پھاڑ کر کھا گیا تھا۔ کنفیوشش نے اظہار ہمدردی کیا تو عورت بولی کہ اس مقام پر شیر اس کے باپ اور شوہر کو بھی چیر پھاڑ کر کھا چکا ہے۔کنفیوشش نے حیران ہو کر پوچھا “تم اس مقام کو چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلی جاتیں ؟”۔۔
ابو ظہبی کے حکمران اپنی دولت شروع شروع میں اپنے محل کے ایک کمرے میں رکھا کرتے تھےاور انہیں شکایت تھی کہ چوہے ان کے کرنسی نوٹ کتر جاتے ہیں ۔ایک برطانوی بینک مینجر نے بڑی مشکل سے انہیں راضی کیا کہ وہ اپنی دولت بینک میں جمع کرادیں ،جس پر وہ بڑی مشکل سے آمادہ ہوئے،انہیں بینکوں پر کوئی اعتبار نہ تھا، شرع میں انہوں نے تجرباتی طور پر صرف دس لاکھ پونڈ بینک میں جمع کروائے،اور اسی دن بینک بند ہونے سے پہلے یہ تمام دولت دوبارہ نکال لی،انہوں نے یہ عمل کئی بار کیا اور تب انہیں یقین آیا کہ بینک میں رقم نہ صرف محفوظ ہے بلکہ وہ جب چاہیں اسے نکلوا سکتے ہیں ،اسی تجربہ کے بعد ابو ظہبی میں بینکنگ کا نظام شروع ہوپایا ۔
ابو القاہیہ ،خلافتِ عباسیہ کے عہد کا ایک معروف شاگرد گزرا ہے،ایک روز وہ کچھ ملول سا بیٹھا تھا ،کسی نے دریافت کیا تو بولا”بھائی بات یہ ہے کہ میں کچھ عجیب سی زندگی بسر کررہا ہوں ،اس سے نہ تو میں خؤش ہوں اور نہ ہی میرا اللہ خوش ہے۔اور نہ شیطان۔۔۔”پوچھنے والے نے حیرت سے اسے دیکھا اور پوچھا “حضرت بات سمجھ میں نہیں آئی،وضاحت فرمائیں ۔۔۔۔۔”ابوالقاہیہ نے کہا اس میں ہر بات واضح ہے،میں دولت کے لالچ میں گرفتار ہوں ،بہت مال و متاع چاہتا ہوں ،جو میسر نہیں ہے۔لہذا سخت ناخؤش ہوں ،ادھر اللہ تعالی نے مجھ سے نا خوش ہے کہ میں اس کی اطاعت کا ملہ اختیار نہیں کررہا ہوں ،اب رہا شیطان تو وہ بد بخت بھی مجھ سے خؤش نہیں ہے کہ میں اتنے بڑے بڑے گناہ بھی کرنے کی ہمت نہیں کرتا جو مجھ سے کروانا چاہتا ہے۔”
ایک دن سماک ،خلیفہ ہارون الرشید کے پاس بیٹھا تھا، خلیفہ کو پیاس لگی ،پانی کے لیے حکم ہوا، تو ہاتھ میں پانی کا گلاس لے کر ابنِ سماک نے پوچھا کہ “امیر المومنین !پہلے یہ بتائیے کہ اگر آپ کو پانی نہ ملے تو شدت پیاس میں آپ پانی کا ایک پیالہ کس قیمت پر خریدیں گے؟آدھی سلطنت دے کر بھی خرید لوں گا۔۔۔۔ ہارون الرشید نے کہا۔ابنِ سماک نے پانی کا گلاس دیتے ہوئے کہا “لیجیے ،اب پانی پی لیجیئے،جب خلیفہء وقت پانی پی چکا تو ،ابنِ سماک نے پھر پوچھا کہ “امیر المومنین !اگر یہ پانی آپ کے پیٹ میں رہ جائے اور باہر نہ نکلے تو؟۔۔۔۔آپ اس کو نکلوانے کے لیے کتنی رقم خرچ کرسکتے ہیں ؟۔۔۔ خلفیہء وقت نے جواب دیا باقی کی آدھی سلطنت خرچ کرسکتا ہوں ۔۔۔۔ابنِ سماک نے کہا کہ” بس پھر یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کی تمام سلطنت ایک گھونٹ پانی اور چند قطرے پیشاپ کی قیمت رکھتا ہے”۔اسی لیے اپنی حکومت پر کبھی تکبر نہ کیجئے اور جہاں تک ہوسکے لوگوں سے نیک سلوک کیجئے۔”۔ہارون الرشید یہ سن کر دیر تک روتا رہا۔
آخر میں ایک واقعہ تمثیل کی زبان میں سنئیے۔۔۔۔کی سیٹھ نے خوا ب میں دیکھا کہ دولت کی دیوی یعنی لکشمی جی کہہ رہی ہے “سیٹھ تیری نیک اور پارسا تگ و دو اور جدو جہد ختم ہورہی ہے،اس لیے میں چند دنوں میں تیرے گھر سے رخصت ہوجاؤں گی۔تجھے مجھ سے جو مانگنا ہے،مانگ لے۔۔۔۔سیٹھ نے کہا کل صبح اپنے گھ والوں سے صلاح مشورہ کرکے جو مانگنا ہوگا مانگ لوں گا۔۔۔۔صبح ہوئی تو سیٹھ صاحب نے خؤاب کا ماجرا سب کے سامنے رکھا،کنبے میں سے کسی نے ہیرے جواہرات مانگنے کا کہا،کسی نے سونے کا ڈھیر،کسی نے لمبی چوڑی گاڑیاں اور کسی نے کوٹھی بنگلے مانگنے کی صلاح دی۔۔۔۔ آخر یہ سیٹھ کی چھوٹی بہو نے کہا ۔۔ابا اب لکشمی دیوی کو جانا ہی ہے تو سب چیزیں ملنے پر بھی رہیں گی کیسے؟۔۔۔آپ تو فقط یہ مانگیے کہ کنبے میں پیار محبت بنی رہے،بھائی چارہ اور قربانی کا جذبہ رہے گا تو مصیبت کے دن بھی آرام سے کٹ جائیں گے”۔۔۔سیٹھ کو یہ تجویز پسند آئی۔اور جب رات کو پھر خواب میں لکشمی دیوی کے درشن ہوئے تو اس نے کہا بولو کیا مانگتے ہو؟۔۔۔۔۔۔سینٹ ھنے کہا کہ”دیوی آپ جانا ہی چاہ رہی ہیں تو خؤشی سے جائیے،لیکن میں آپ سے صرف ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں ،کہ ہمارے کنبے کے لوگوں میں ہممیشہ بنی رہے گی۔ہمیشہ پیار محبت رہے گا۔دیوی بولی سیٹھ تونے ایسا وعدہ مانگا ہے کہ مجھے باندھ ہی لیا ہے،بھلا جس کنبے کے افراد میں پیار اور پریم ہوگا وہاں سے میں کیسے جاسکتی ہوں “۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں