• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزاد کشمیر اسمبلی سے حقوق گلگت بلتستان کیلئے متفقہ قراداد۔۔۔۔شیر علی انجم

آزاد کشمیر اسمبلی سے حقوق گلگت بلتستان کیلئے متفقہ قراداد۔۔۔۔شیر علی انجم

محترم قارئین گلگت بلتستان کا ریاست جموں کشمیر سے دو سوسالہ سیاسی اور قانونی رشتے کی داستان اندوہناک بھی ہے اور عجیب غریب بھی۔ 1840 سے 1947 تک کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتا کہ گلگت بلتستان اور لداخ کے لوگ مہاراجہ کی حکومت سے خوش رہا ہو،یہاں کے عوام نے رنجیت سنگھ سے لیکر ہری سنگھ تک کی حکمرانی کو ہر دور میں مسترد کیا اور جب بھی موقع ملا یہاں کے عوام نے بغاوت کا علم بلند کیا جس کے نتیجے میں سکھوں اور ڈوگروں نے کہیں طاقت کا بھر پور مظاہر ہ کیا کہیں مقامی افراد کو مراعات دیکر حکمرانی کرتے رہے۔ یہ قصہ بہت طویل ہے لہذا ہم تقسیم برصغیر کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے آج کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
دنیا کے نقشے پرپاکستان بطور ایک اسلامی فلاحی ملک کی تصور کے ساتھ وجود میں آنے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واقع قدرتی حُسن اور معدنی ،آبی وسائل سے مالا مال ریاست جموں کشمیر کے فضاوں میں بھی انقلاب کی صدائیں گونجنے لگی ۔ تاریخی کتابوں میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ انقلاب گلگت کے بانی کرنل مرزا حسن خان آف گلگت نے جنوری 1946 میں دوسری عالمی جنگ میں غازی کے طور پر برما سے واپسی کے بعد متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کا الگ ملک کیلئے جاری تحریک سے متاثر ہو کر اور مہاراجہ کا برما سے واپس آنے والے مسلمان افسران کیلئے گرم جوشی کم بلکہ غیر مسلم افسران کی ذیادہ عزت افزائی دیکھ اُن کے دل میں بھی انقلاب کا خیال آیا۔ اُنہوں نے مہاراجہ کا تختہ اُلٹنے کیلئے مہاراجہ کے فوج میں شامل مسلمان افسروں پر مشتمل ایک انقلابی کونسل تشکیل دی تھی جس کا بنیادی مقصد ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کو مہاراجہ ہری سنگھ کی سلطنت سے آذادی دلانی تھی۔
اُس انقلابی کونسل میں چونکہ اہل تشیع اور اہلسنت کے افسران بھی تھے لہذا اُنہوں نے جن افسران کا تعلق اہل تشیع مکتب فکر سے تھا اُنہیں حضرت امام حسین جبکہ اہل سنت مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افسران سے امیر معاویہ کے ناموں کا واسطہ دیکر ساتھ ملایا تھا۔ تاریخ کے کتابوں میں یہ بات بھی لکھی ہوئی ہے کرنل حسن خان کی خواہش تھی کہ انقلابی کونسل کا چیف اُس وقت کے کپٹن (میجر اسلم) المعروف کرنل پاشا شنگھریلا والے جو کرنل مرزا حسن خان سے 6 ماہ سنئیر تھے کو انقلابی کونسل کا چیرمین مقرر کریں لیکن اُنہوں نے انکار کرتے کرنل مرزا حسن خان کے ماتحت کام کرنے خوشی کا اظہار کیا۔ لیکن کچھ ہی مہینے بعد چیرمین انقلابی کونسل سے بغیر کسی مشاورت کے جموں کو چھوڑ کر رانچھی انڈیا چلے گئے اور غیرمنقسم برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کرلی اور بعد میں وہ اُس وقت نمودار ہوئے جب 22 اکتوبر کو میجر خورشیدانور کے ساتھ قباٖئلی لشکریوں کے ساتھ سری نگر پر حملہ آور ہوئےوہاں سے ہندوستانی فوج کے ساتھ مقابلے میں مناسب کامیابی نہ ملنے کی وجہ سے واپس مظفر آباد پونچ گئے۔
لیکن انقلاب گلگت کے بعد میجر اسلم گلگت آئے مگر کرنل حسن خان نے اُنہوں گلگت میں ٹکنے نہیں دیا وہ دوبارہ واپس چلے گئے اور بعد میں انقلاب گلگت ناکام ہونے کے بعد بلتستان کی طرف پیش قدمی کرنے والے فوج کی سربراہی کی( جبکہ بلتستان کی طرف پیش قدمی کیلئے پہلے ہی کرنل مرزا حسن خان نے راجہ آف روند کے خط پر مجاہد بختاور شاہ کی قیادت فورس روانہ کردی تھی)۔
محترم قارئین قصے کو مزید مختصر کرتے ہوئے اگر ہم بات کو اُس دن سے شروع کریں جب 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی لشکر وں نے کشمیر کی طرف پیش قدمی کی جس کے نتیجے میں چار ہزار مربع میٖل کا رقبہ فتح کیا جسے آج آذاد کشمیر کہتے ہیں ، جب یہ سارا معاملہ ہوا تو ایک طرف کرنل مرزا حسن خان اور اُنکی ٹیم موقع کی تلاش میں تھے اور 26 اکتوبر کو جب مہاراجہ ہری سنگھ سے ہندوستان کی فوج کو اپنی ریاست بچانے کیلئے دعوت دی اور ایک لیگل انسٹرومین کے ذریعے ریاست جموں کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ موقع تھا جب کرنل حسن کی انقلابی کونسل کو عملی طور پر جدوجہد کرنے کا موقع ملا اور اُنہوں نے مہاراجہ کے آمرانہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے انقلاب گلگت کی شکل ریاست جموں کشمیر کے آبادی اور رقبے میں سب سے ذیادہ شمالی سرحدی صوبہ گلگت اور لداخ سے مہاراجہ تختہ اُلٹ دیا اور گلگت میں مہاراجہ ہری سنگھ نھانجے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کرکے جمہوریہ گلگت کی بنیاد رکھی اور پاکستان کے ساتھ ڈائیلاگ کیلئے ایک عبوری ریاستی کابینہ تشکیل دی۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ انقلاب گلگت کے وقت گلگت اور لداخ دو الگ صوبے تھے ایسا بلکل نہیں ہے ۔ تاریخ کے کتابوں میں یہ بات درج ہے کہ کرنل بیکن گلگت ایجنسی میں برطانیہ کا آخری پولٹیکل ایجنٹ تھا اس سے پہلے بلتستان لداخ وزارت کا حصہ تھے اور براہ راست کشمیر دربار کے زیر نگین تھےلیکن یکم اگست 1947 کو کرنل بیکن نے گلگت ایجنسی جو 1935 میں 60 سال کیلئے پٹے پر لیا تھا اور وقت سے پہلے ہی مہاراجہ کشمیر کو واپس کردیا اور گلگت ایجنسی سے برطانیہ کا جھنڈا بھی سرنگوں کرکے کشمیر دربار کا جھنڈا لہرا دیا۔اسکے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنا بھانجا برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو بطور گورنر گلگت ( جسے دوبارہ وزارت لداخ میں شامل کردیا اور بلتستان پہلے ہی وزارت لداخ کا ہی حصہ تھے) مقرر کرکے نیا نام شمالی علاقہ جات سرحدی صوبہ رکھ دیا گیا اور یہی نام UNCIP میں استعمال کیا گیا۔اس صوبے کا نام گلگت بلتستان لداخ صوبہ بھی کہتے رہے ہیں۔ اس صوبے کا ٹوٹل رقبہ 63500 مربع میل ہے اور ریاست جموں کشمیر 75 فیصد رقبہ گلگت بلتستان لداخ کہلاتے ہیں۔
یوں واپس موضوع کی طرف چلتے ہوئے اگر کہیں کہ جمہوریہ گلگت نے ابھی اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرنا باقی تھا کیونکہ ابھی بہت سے مسلمان اکثریتی علاقوں میں موجود ڈوگرہ فورسز کو وہاں سے نکال دینا تھا یہی وجہ تھی کہ انقلاب گلگت کے بانی کرنل مرزا حسن خان نے عبوری کونسل کے اہم اختیارات مقامی سیاسی قیادت کو منتقل کرکے خود کمانڈرز انچیف کے طور اگلے مورچے کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس موقع پر گلگت میں موجود برطانوی سامراجی ایجنٹ میجر بروان اور اُن کے حواری چونکہ کرنل مرزا حسن خان کے انقلابی عزائم سے ناخوش تھے اُنہوں نے سازشوں کا جال بچھانا شروع کردیا اور کرنل مرزا حسن خان کو اُن کے فرقے کی وجہ سے مخالف فرقوں میں زہر آلود سازشوں سے بھرپورافواہیں اُڑانا شروع کردیا اور کہا گیا کہ کرنل مرزا حسن خان اس خطے کو شیعہ اسٹیٹ کو طور پر قائم رکھنا چاہتا ہے حالانکہ انقلابی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے افسران موجود تھے یہاں تک کہ انقلاب گلگت کے وقت کرنل مزرا حسن خان کے قریبی ساتھیوں کا تعلق بھی مسلک اسماعلیہ اور اہلسنت سے تھے۔لیکن یہ سازش بڑا کام کرگیا اور میجر بروان اور دیگر چند مقامی الہ کاروں کی ملی بھگت سے بانی انقلاب سے بغیر کسی مشاورت کے نومولود اسلامی ملک پاکستان سے رابطہ افسر کے طور پر آئے پختوانخواہ سے تعلق رکھنے والے تحصیلدار سردار عالم سے 16 نومبر 1947 کو اعلان کروایا کہ گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوگیا ہے اور اُس وقت کے عوام چونکہ چاہتے ہی تھے کہ اس نومولود ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوجائے اس محبت میں یہاں کے عوام میجر بروان کی سازشوں کو سمجھ نہ سکے اور سردار عالم نے ایک آذاد کردہ ریاست میں سیکورٹی اور جنگی صورت حال کا بہانہ بنا کر ایف سی آر نافذ کر دیا۔
اب اگر ہم اگلے مرحلے میں ادھوری انقلاب اور مسلہ کشمیر وجود میں آنے کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیں تو طویل کہانی ہے لیکن مختصر ذکر کریں تو جواہر لال نہرو نے 1 جنوری 1948 کواس مسلے کو اقوام متحدہ لیکر گیا اور ہاوں ایک کمیشن بنی اُس کمیشن کو بین الاقوامی طور پر UNCIP کہتے ہیں اس کمیشن پر مملکت پاکستان اور ہندوستان دونوں نے دستخظ کی ہوئی ہے یہ طے پایا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے84 ہزار مربع میل خطہ متنازعہ ہے اور اس خطے میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں کسی ملک میں شامل ہونے یا الگ ریاست کیلئے رائے شماری ہونا باقی ہے لیکن بھارت کا موقف ہے کہ چونکہ مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947 کو اُن کے ملک کے ساتھ الحاق کیا تھا لہذا ریاست جموں کشمیر قانونی طور پر اُنکا ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے عوام اس سے بلکل الگ رائے رکھتے ہیں جس میں وزن بھی ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام دلیل پیش کرتے ہیں کہ ہم نے چونکہ یکم نومبر 1947 کو آذادی حاصل کرکے گلگت بلتستان کو بھارت کی جولی میں جانے نہیں دیا اور لداخ کو واپس لاتے لاتے بین الاقوامی لائن آف کنٹرول کا فیصلہ ہوا لہذا گلگت بلتستان پر بھارت کا دعویٰ کسی بھی حوالے سے قانونی نہیں اور یہاں کے عوام پچھلے اکہتر سالوں میں پاکستان میں ضم ہونے کیلئے تحریک چلا رہے ہیں۔ لیکن کچھ تاریخی غلطیوں کی وجہ سے ایسا مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ پہلی بات یہ ہے کہ 13 اگست 1948 کے قراداد میں گلگت بلتستان کو بھی ریاست جموں کشمیر کے دیگر اکائیوں کی طرح متنازعہ قرار دیکر 6 ہفتوں کے اندر گلگت میں لوکل اتھارٹی کے قیام کے حکم پر مملکت پاکستان نے دستخط کی ہوئی ہےلیکن اس راہ میں کون رکاوٹ ہے آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے دوسری بات اقوام متحدہ میں وعدہ کرنے کے باوجود 28 اپریل 1949 کو جب معاہد ہ کراچی پر دستخط طے پایا تو گلگت بلتستان کی الگ حیثیت اقوام متحدہ میں ہونے کے باوجود اُس معاہدے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی نے سوال نہیں اُٹھا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہےلہذا گلگت کے معاملے کو اس معاہدے میں شامل نہ کریں۔ یوں یہ بات واضح ہوگیا کہ ہماری خواہشات کے باوجود الحاق کی باتیں خواہش پر مبنی نعرہ ضرور ہے لیکن کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اُس معاہدےمیں جس طرح مشتاق گورمانی نے گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں کی بلکل اسی طرح آذاد کشمیر کے قیادت نے بھی یو این سی آئی پی کا متفق فیصلہ ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں لوکل اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ کرنے کے بجائے گلگت بلتستان کو ریاست کا حصہ قرار دیکر وفاق پاکستان کو یہ کہہ کر حوالہ کیا کہ یہ علاقے چونکہ بہت طویل ہے اور مسائل بہت ذیادہ ہے لہذا ریاست کے اس حصے کو انتظامی نظام کی ذمہ داری مسلہ کشمیر کی حل کیلئے رائے شماری ہونے تک پاکستان قبول کریں۔
یوں اُس وقت سے لیکر آج گزشتہ ہفتے گلگت بلتستان کو حقوق دینے کیلئے قراداد منظور ہونے تک کشمیر ی قیادت یہ سمجھ کر بیٹھ گئے کہ ہم نے گلگت بلتستان کو ایک طرح سے ممی بنا لیا ہے اور جب رائے شماری ہوگی تو اس خطے کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت کے باوجود کشمیر ی قیادت گلگت بلتستان کے بارے میں بلکل لاعلم رہے ایک طرح سے اُنہوں گلگت بلتستان سے قطع تعلق کی یہی وجہ ہے کہ 24 سالہ ایف سی آر کی خاتمے کے بعد ذولفقار علی بھٹو نے 1974 میں سیاسی اصلاحات کی ابتداء کرکے گلگت بلتستان کو عوام کو مقامی راجاوں کی غلامی سے آذادی دلائی ساتھ متنازعہ حیثیت کے باوجود گلگت بلتستان میں قانون باشندہ ریاست سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی شروع اور یوں بعد میں 1956 میں اسکندر مرزا نے چند مقامی افراد کی ملی بھگت سے اسٹیٹ سبجیکٹ کی مکمل طور پر خلاف ورزی کرنا شروع کیا لیکن کسی بھی کشمیر ی قیادت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی ایک اخباری بیان دیا ہو کوئی ثبوت نہیں۔اسی طرح 2009 میں دوسری بار پیپلزپارٹی کے دور میں گلگت بلتستان کو انتظامی طور پر سیلف گورنینس آرڈر پاس کیا تو گلگت بلتستان کے لوگ سمجھے شائد گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنایا جارہا ہے لیکن معلوم یہ ہوا کہ ایک صدارتی حکم نامے کے تحت کچھ اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کو منتقل کیا جارہا ہے جس پر کشمیر ی قوم پرست سیخ پا ہوگئے اور اُنہوں نے اعلان جنگ کا اعلان کردیا حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کے قرادادوں کے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانا اتنا آسان فارمولہ نہیں لیکن اُنکے روئے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام جو پہلے ہی اپنی تاریخ سے نابلد ہیں کشمیری قیادت سے شدید نفرت کرتے ہیں۔
آج اگر کشمیر ی قیادت کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ گلگت بلتستان کے لوگ اُن سے نفرت کرتے ہیں تو میرے خیال سے اس عمل کا کریڈیٹ عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کو ملنا چاہئے کیونکہ اُن کی وجہ سے اُن کے اندر گلگت بلتستان کیلئے احساس پیدا ہوگیا اور اُنہوں نے گلگت بلتستان کو UNCIP کے قرادادوں کے مطابق حقو ق کیلئے مظفرآباد اسمبلی سے متفقہ قرادا د پاس کرکے اکہترسالوں کے زخم پر مرہم رکھنے کی پہلی کوشش کی جسے سرہانے کی ضرور ت ہے۔لیکن گلگت بلتستان میں اس قراداد کے بعد بہت سے چہرے برُی طرح بے نقاب ہونا شروع ہوگیا ہے وہ لوگ جنہوں نے جھوٹ بول کر اس قوم کے نفسیات کے ساتھ اکہتر سالوں سے اپنے ذاتی مراعات اور مفادات کیلئے کھیلتے رہے ہیں وہ اس قراداد سے بہت ذیادہ پریشان دکھائی دے رہا ہے اور ماضی کے گھسی پٹی خواہشات پر مبنی مطالبات کے ذریعے عوام کے دل لبھانے کی کوشش میں مگن نظر آتا ہے۔ یہاں ایک بات بتانا بہت ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کو عوام پاکستان کو اپنا منزل سمجھتے ہیں گلگت بلتستان کے عوام کا ہر محاذ پر مملکت پاکستان کیلئے قربانیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور یہ قربانی کسی لالچ میں نہیں بلکہ محبت میں دی جاررہی ہے ۔مگر چند باتیں تاریخی حقائق اور ریاست پاکستان کی پالیسی کا حصہ ہے اُن میں سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ریاست پاکستان اقوام متحدہ قرادادوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کی اکائی سمجھتا ہے اور اس خطے کو صوبہ بنانے سے بین الاقوامی سطح پر مملکت پاکستان کیلئے سیاسی اور سفارتی طور پر نقصان پونچ سکتا ہے ایسے میں گلگت بلتستان اسمبلی سے اپنی خواہشات کے مطابق مسلسل ریاست پاکستان کو بلیک میل کرنے کی کوشش میرے خیال سے درست اقدام نہیں کیونکہ مسلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اہم اکائی ہے اور مسلہ کشمیر کی حل کیلئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی 84 ہزار مربع میں خطے میں رائے شماری ہونا باقی ہے۔
لہذا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو قراداد آذاد کشمیر اسمبلی نے گزشتہ ہفتے منطور کی ہے وہی قرادا د کئ سال پہلے گلگت بلتستان کی اسمبلی میں پاس ہو جائے لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ماضی سے لیکرآج تک کی حکومت کے تمام عہدیداران نجی محفلوں میںاس قراداد کو خوش آئند قرار دیتے ہیں لیکن اخبارات میں جھوٹ پر مبنی بیان دیکر عوام کو مزید گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں شامل ہونا گلگت بلتستان کے 22 لاکھ عوام کی خواہش ضرور ہے لیکن مسلہ کشمیر کی حل تک کیلئے ایسا ممکن نہیں اور اگر گلگت بلتستان کسی قسم کو صوبہ بنایا بھی جائے تو آئین میں ترمیم نہیں کرے گا کیونکہ اس راہ میں بھی یو این سی آئی پی کے قراداد سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔لہذا ہمیں اپنی خواہشات پر عمل درآمد کیلئے دعا کرتے ہوئے گلگت بلتستان اسمبلی کو بھی عوامی ایکشن کمیٹی،متحدہ اپوزیشن کے ساتھ ملکر مظفرآباد اسمبلی کے قراداد کی حمایت کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے عوامی ایکشن کمیٹی نے پہلے ہی مطالبہ کیا ہوا ہے کہ مکمل آئینی صوبہ نہ بنانے کی صورت میں مسلہ کشمیرکی حل تک کیلئے گلگت بلتستان کو ایکٹ آف پارلمینٹ کے تحت تمام اختیارات منتقل کئے جائیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply