بہترین قومیں کیسے بنتی ہیں/توقیر بُھملہ

مسافر جو سیاح بھی ہو اس کی آنکھ حیرتوں کا جہاں ہوتی ہے، وہ اپنے تسکین تجسّس کی خاطر وہ کچھ بھی دیکھ لیتا ہے جو عام بلکہ ظاہری آنکھ سے پوشیدہ رہتا ہے۔
وہ سات بچے تھے جن کی عمریں لگ بھگ سات برس سے لے کر تیرہ برس کے درمیان تک ہوں گی۔
وہ سب چراغ کا جن بنے ہوئے بجلی کی مانند لپکتے پھرتے تھے. ادھر کسی نے جنبشِ ابرو کی اور ادھر آناً فاناً ان میں سے کوئی ایک دست بستہ حاضر ہوجاتا۔
میرے لیے تمام کی تمام صورتحال بالکل نئی اور نہایت دلچسپ تھی، میں غیر محسوس طریقے سے دوستانہ سوالات کے ذریعے لوگوں کی نفسیات جانچ رہا تھا کہ اس عالم حیرت میں وہ سات کردار اچانک اس طرح نمودار ہوئے کہ سارے منظر پر چھا گئے۔
مسجد نبوی میں مختلف حلقات بنے ہوئے تھے ، کچھ تو مخلوط رنگ و قومیت کے تھے اور کچھ ایک ہی رنگ و نسل کے لوگوں پر مشتمل تھے
ہر دائرے کی اپنی الگ دنیا اور اپنی کہانی تھی۔۔
جس دائرے میں میں موجود تھا وہ بھی مخلوط قومیت پر مشتمل تھا. مثلاً میری دائیں جانب مصری، نائجیری، پاکستان ملتانی، میرے عقب میں مغربی اور اردنی، میرے سامنے سوڈانی، کیمرونی اور گھانا کے لوگ، بائیں جانب پاکستانی ، افریقی اور خلیج عرب کے زائرین تھے. اور دائروں پر ان سات بچوں کے غیر مرئی پروں کا سایہ تھا جو ضیوف رحمت للعالمینؐ کی خدمت میں اس طرح حاضر تھے کہ باوجود کوشش کہ اول تا آخر کسی ایک کے بھی روشن ماتھے پر ناگواری یا جھنجھلاہٹ کی ایک شکن تک نہ ڈھونڈ پایا۔
اس جیسے تمام حلقوں پر ان جیسے تمام خدمتگار بچے حاضری دینے والے زائرین کی افطاری کے انتظامات پر مامور تھے اور ان کی عمریں، ان کی پھرتیاں اور ان کے کام کوئی بھی چیز آپس میں میل نہیں کھا رہی تھی مگر وہ سب ان تقابل سے بے نیاز بلا تفریق رنگ و نسل، ذات پات، حسب نسب سب کے لیے یکساں طور پر میسر تھے۔۔
میرا دوست کہنے لگا یہ عربی بچے کتنے خوش اخلاق اور چست ہیں کہ ہم جو بڑے ہیں وہ اس افطاری سے پہلے ادھ موئے ہوئے پڑے ہیں اور ہلنے جلنے کی سکت نہیں ہے، مگر ان بچوں کی چستی، انہماک، شوق اور خوش اخلاقی ایسی ہے کہ دیکھ کر لگتا ہے یہ گوشت پوست کے ہیں ہی نہیں، جو دیکھنے میں تو چیونٹی جتنے ہیں مگر بھار ہاتھی کی جسامت سے بڑا اٹھا رکھا ہے۔
میں نے کہا غور سے دیکھو یہ عربی زبان میں گفتگو تو کررہے ہیں مگر یہ عربی نہیں ہیں، کہنے لگا نہیں یار ایسا نہیں ہوسکتا،
میں نے کہا ابھی دیکھو، ایک ننھے فرشتے کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے عربی میں کہا “تم اصل ترک ہو؟” اس نے میری بات کے جواب میں فخر سے سینہ پھلاتے یوئے گردن بلند کی اور اتنی بلند آواز سے “الحمدللہ” کہا جیسے مجھے کہہ رہا ہو کہ اتنے بھرے مجمعے میں اگر تم سے کوئی پوچھے “پاکستانی” ہو تو کیا تم اتنی بلند آواز سے “الحمدللہ” کہہ سکتے ہو”؟
میرا دوست حیران رہ گیا، اتنے میں افطاری کا وقت ہوگیا تو میں نے کہا افطاری کرتے ہیں پھر ان کے راز سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان سات بچوں نے تقریباً ڈیڑھ دو سو زائرین کی صفیں سیدھی کروا کر ان کے درمیان پلاسٹک کی شیٹیں بچھائیں، پھر ہر کسی کو فرداً فرداً افطاری کے پیکٹ تھمائے، پھر کولروں سے پلاسٹک کے گلاسوں میں زم زم بھرا اور ہر کسی کے پاس جاکر ان کے سامنے تھال رکھا جس کی جتنی تمنا تھی وہ اتنے گلاس اٹھا لیتا اور ان کی مسکراہٹ مزید بڑھ جاتی مگر ماتھے پر شکن یا آنکھوں سے شکوہ تک نہ جھلکتا۔ کھجوریں، دہی، روٹی، الگ سے پانی کی بوتلیں، چار قسم کی چائے کے تھرماس اور کپ، وہ یہ سب اٹھائے اٹھائے زائرین کے سامنے ادب و احترام سے بچھے جاتے تھے، اگر کوئی کہتا مجھے فلاں چیز زیادہ مقدار میں چاہیے تو وہ اس بھاگ دوڑ میں بھی اپنے ذہن میں اس شخص کی صف، اس کی شکل اور اس کی طلب مسکراتے ہوئے اس طرح محفوظ کرلیتے کہ اگلے چند لمحوں میں اس کی مطلوبہ چیز اسے تھما دیتے، میرے ساتھ بیٹھے بابا جی نے نجانے کتنی بار ان کو روکا، ان کے کام میں خلل ڈالا اور ملتانی لہجے میں چیزیں مانگی اور وہ کم سن اتنے ذہین تھے کہ زبان کی بجائے لہجے اور آنکھیں پڑھنے کا فن جانتے تھے اور ٹھیک ٹھیک مطلوبہ چیز لا دیتے تھے۔
میرے لیے تو یہ سب علم بالقلم کی صورت میں رزق تھا جو بن مانگے عطا ہو رہا تھا۔
افطاری کے بعد ان ننھے فرشتوں نے روزہ افطار کرنے والوں کا بچا کھچا سامان سمیٹ کر بڑے بنڈلوں کی شکل دی اور بمشکل سے اٹھا کر اپنی پشت پر لادا اور کچرے والے ڈرموں میں پھینکنے لگے، ان کی ہر ادا میں ترتیب، اور اعلیٰ تربیت کی جھلک نمایاں تھی۔
نماز کے بعد میں نے انہیں جالیا اور ان سے گپ شپ شروع کردی۔
ایک کے ہاتھ میں “کائی قبیلے” والی انگوٹھی دیکھ کر اس سے بات چیت کا فیصلہ کیا، اور اس کی اجازت سے اس کے ساتھ تصویر بھی بنوا لی۔
بقول ان کے وہ ترکش ٹیکنالوجی اسکول میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طلباء تھے اور اسکول کی جانب سے تعلیم کے ساتھ حرم مدنی میں ان کی اخلاقی تربیت کے لیے ڈیوٹیاں لگی تھیں، کہ وہ کس طرح پریشر کو ہینڈل کرتے ہیں، لوگوں کی ناگوار باتوں پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں، اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ ان کے رویوں کے مطابق کرتے ہیں یا پھر اپنی تربیت کے مطابق۔
چشم زدن میں مجھ ہر عیاں ہوگیا کہ وہ قومیں جو اپنے اوپر فخر کرتی ہیں وہ بہترین قومیں کیسے بنتی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply