معجزے آج بھی ہوسکتے ہیں -2/انجینئر ظفر اقبال وٹو

نوشکی اور چاغی کے ہفتہ بھر کے دورے پر نکلے تو پتہ چلا کہ بلوچستان کتنا وسیع و عریض ہے- کوئٹہ سے تفتان تک کے سفر میں جتنا وقت لگتا ہے اس سے کم وقت میں تو آپ لاہور سے اسلام آباد یا ملتان ہوکر واپس آسکتے ہیں-ان تین ضلعوں کے سفر میں اونچے پہاڑ، میدانی علاقے ، صحرا اور ندی نالے سب راستے میں آتے ہیں- اور اس ایک سفر میں گاڑیاں ہزاروں کلومیٹر چل گئیں-
بلوچستان کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے میں اکثر اپنے دوستوں کو ایک سادہ سی مثال یہ دیتا ہوں کہ اگر بلوچستان کے علاوہ پاکستان کے باقی تمام صوبوں پنجاب ، کے پی کے، سندھ اور جی بی کا زمینی رقبہ اکٹھا کر لیں تو یہ سب مل کر اکیلے بلوچستان کے رقبے کے برابر ہوگا- اس سفر میں میں نے اندازہ کر لیا کہ اتنے وسیع وعریض علاقے میں دور دراز کی کلیوں میں پھیلی بیس ہزار سے زائد مائیکرو اسکیموں کوکوئٹہ سے کنٹرول کرنا مشکل ہوگا اور ہمیں علاقائی سطح پر اپنے چھوٹے چھوٹے کیمپ آفس بنانے پڑیں گے-
نوشکی چاغی کے لئے علیحدہ کیمپ آفس کا تو میں نے اسی سفر میں فیصلہ کرلیا اور ارادہ کیا کہ تمام اضلاع کا زمینی دورہ کرکے ہر ایک کے جغرافیائی اور کلچرل محل وقوع کو دیکھتے ہوئے کام کی مقدار اور فیلڈ کی مسافت کی سہولت کے لحاظ سے دو سے تین یا چار اضلاع کے کلسٹر بنا لئے جایئں-جہاں کیمپ آفس بنا کر مناسب تعداد میں زمینی عملہ تعینات کردیا جائے جو اپنے روز مرہ کے کاموں کو خود پلان کرے اور اپنے اخراجات میں خودکفیل ہو-
کوئٹہ سے نکلتے ہی موبائل کے سگنل نہیں آتے تھے-اور پی ٹی سی ایل والوں کا وائرلیس فون سیٹ اس وقت (جولائی 2005) ہمارا بڑا سہارا ہوتا تھا جو کہ بڑے شہروں جیسے نوشکی وغیرہ کے گرد و نواح میں چلتا تھا- اس کے علاوہ شہروں کے درمیان سفر میں آپ کے پاس رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا-انٹرنیٹ کے پی ٹی سی ایل کے ڈائل آپ کنکشن ہی استعمال ہوتے تھے جن کی انٹرنیٹ کی رفتار کافی سست ہوتی تھی-
نوشکی میں محکمہ زراعت کے ڈسٹرکٹ افسر خلیل صاحب تھے کو کہ ایک نہایت وضع دار اور محنتی نوجوان افسر تھے انہوں نے ہمیں پورے ضلع کی اسکیموں کا دورہ کروایا اور میں نوشکی اور چاغی کے دشت ، صحرا اور پہاڑوں میں پھیلی ان اسکیموں کو دیکھ کر سوچتا رہا کہ اس قسم کے جغرافیائی علاقوں میں پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں کی طرز پر کھال کیسے پختہ کئے جا سکتے ہیں-جہاں میدانی علاقوں میں چند ایکڑ کے بعد زمین کی ملکیت تبدیل ہو جاتی تھی وہیں بلوچستان میں شائد ذاتی ملکیت سے زیادہ قبائل کی مشترکہ ملکیت والی زمینیں تھیں اور کسی کسان سے جب ہم اس کی زیر ملکیت زمین کے حوالے سے سوال کرتے تھے تو اکثر یہ جواب ملتا تھا کہ یہ پہاڑ سارا ہمارا ہے-
پنجاب ، سندھ اور کے پی کے میں جہاں نہری پانی کے بہترین نیٹ ورک موجود تھے جن کے پانی کو لے جانے والے کھال اس پروگرام میں پختہ کئے جارہے تھے جب کہ بلوچستان میں پٹ فیڈر اور لسبیلہ کینال کے علاقوں کو چھوڑ کر پورے صوبے میں کوئی نہری نظام یا کھال نہ تھے- آب پاشی کے لئے پانی سیلابی ندیوں ، زیر زمین کاریزوں، چشموں یا ٹیوب ویل سے لیا جا رہا تھا جس کی محدود پیمانے پر دستیابی کی وجہ سے بہت ہی بکھری ہوئی جگہوں پرالگ تھلگ طریقے سے زراعت ہورہی تھی- اکثر یہ علاقے ایک دوسرے سے بھی کٹے ہوئے تھے- یہ صورت حال دیکھتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ جب تک ہم نے مقامی ضروریات سے ملتی زمینی حقائق کے مطابق اسکیمیں نہ بنائیں تو یہ پراجیکٹ صرف وقت اور پیسہ ضائع کرنے والی بات ہوگی-
میں نے اس دورے کے دوران ہی مقامی لوگوں سے پوچھنا شروع کردیا کہ وہ کس قسم کی اسکیمیں اپنے علاقے میں بنوانا چاہتے ہیں جو کہ ان کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ مند ہوں- اگرچہ محکمہ کے ساتھی میری اس اپروچ سے خوش نہیں تھے – ان کے خیال میں یہ مقامی آبادی کی پراجیکٹ سے توقعات بڑھانے والی بات تھی خصوصا اس صورت میں جب پراجیکٹ کا ڈیزائن پی سی ون میں پہلے ہی فکس ہوچکا ہے- تاہم وہ ڈیزائن نوشکی چاغی کے بہٹ بڑے علاقے کے لئے تو قابل عمل نہیں لگ رہا تھا-
میں نے ایک کسان سے پوچھا کہ اتنا زیادہ رقبہ ہونے کی باوجود وہ اس پر کاشت کیوں کم کر رہا ہے تو اس کا جواب چونکا دینے والا تھا- بولا “صیب “ وہ دور پہاڑ کے دامن میں پانی ہے – وہاں ٹیوب ویل لگا ہے جو کہ ڈیزل پر چلتا ہے (سولر پینل اس وقت عام نہیں ہوئے تھے) – میری زمین چار پانچ کلومیٹر دور ہے- ریتلا علاقہ ہونے کی وجہ سے میری زمین تک پانی دو گھنٹے سفر کے بعد پہنچتا ہے- اگر راستے میں کوئی کٹ وغیرہ لگ جائے اور لیٹ ہو جاتا ہے اب دو گھنٹے زمین تک صرف پانی پہنچانے کے لئے مفت میں ڈیزل کہاں سے لاؤں-
لیکن میں سوچ رہا تھا کہ ان چار پانچ کلومیٹروں میں دو گھنٹوں میں کتنا پانی آس پاس کی ریت میں جذب ہو کر ضائع ہو جاتا ہوگا یا بخارات بن کر اڑ جاتا ہوگا- اس کا آسان حل پی وی سی یا آر سی پائپ لائن تھی جو کہ ہمارے پراجیکٹ کے پی سی ون میں اس وقت کہیں موجود نہیں تھی-دوسرا پانچ کلومیٹر ایک بہت بڑی لمبائی تھی- پراجیکٹ کا ڈیزائن دو کلومیٹر سے اوپر آکر رک جاتا تھا- کتنی بد نصیبی کی بات تھی کہ پانی موجود تھا، زرعی زمین بھی وافر پڑی تھی- لیکن کاغذی منصوبہ بندی کی وجہ سے ٹیوب ویل سے زمین تک پانی پہنچایا نہیں جا سک رہا تھا- اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہئے تھا-
اس دورے نے ذہن پر چھٹی دھند صاف کر دی تھی-اور میں نے پراجیکٹ پر کام شروع کرنے سے پہلے مختلف اضلاع کے دورے کرنے اور زمینی حقائق معلوم کرنے کا ارادہ بنا لیا- بلوچستان کی وسعت کے پیش نظر اس مشاورتی خدمات کے لئے اس کے دو زون بنی ہوئے تھے- شمالی بلوچستان اور جنوبی بلوچستان- میری ذمہ داری شمال بلوچستان کی تھی جس میں پندرہ اضلاع شامل تھے- میں نے نوشکی سے واپسی پر اس دورے کی ٹور رپورٹ مرتب کی اور پھر لورا لائی کی طرف نکلنے کا ارادہ کرلیا-
اگلے دن میں کوئٹہ میں اپنے دفتر میں ہی بیٹھا تھا کہ بلوچستان کے بے روزگار انجنئرز کی ایسوسی ایشن کا ایک وفد میرے کمرے میں اچانک پہنچ گیا اور میرے ساتھ بحث شروع کردی کہ باہر سے انجنئیر لانے کی بجائے اس پراجیکٹ میں مقامی انجنئرز کو بھرتی کیا جائے- ان کا مطالبہ بہت جائز تھا لیکن ا ان کی گفتگو کا انداز دلوں کی دھڑکنیں تیز کرنے والا تھا- ان سے اس دن ایک بہت زبردست نشست ہوئی جس میں کئے گئے فیصلوں نے ان سب انجنئیرز کی زندگیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل دیا –
مزید تفصیل اگلی پوسٹ میں انشااللہ
انجنئیر ظفر اقبال وٹو

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply