زندگی کا سوتیلا بچہ/یاسر جواد

میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا جس کو شکوہ ہو کہ احمد سلیم نے اُسے نقصان پہنچایا یا اُس کے ساتھ زیادتی کی۔ میں کسی ایسے شخص کو بھی جانتا جس سے احمد سلیم کو شکوہ نہ رہا ہو۔ لیکن اُس کے شکوے بہت معصومانہ تھے۔ وہ کہتا:مجھ سے کتاب لے لیتے ہیں، رائلٹی نہیں دیتے، وقت پر نہیں دیتے، اعزازی کاپیاں نہیں دیتے، نام ٹائٹل پر نہیں دیتے۔ یا پھر وہ کہتا کہ وسائل نہیں ہیں کہ اپنی کتب کو ترتیب سے رکھنے کے لیے شیلف بنا سکے۔ چند ماہ پہلے اُسے بلراج ساہنی کے سفرنامۂ پاکستان کا دوسرا ایڈیشن بھجوایا گیا تو اُس نے طویل فون کیا اور اصرار کرنے لگا کہ بلراج کے بیٹے پریکشت ساہنی سے رابطہ کرو، بلراج کی جذباتی ڈائری بھی ترجمہ کرو…..۔ پھر اوپر تلے دو تین فون کیے کہ فلاں پبلشر میرا فون نہیں اُٹھا رہا، اُس سے کہو…..۔
ہم سب زندگی کی اساسی بیگانگی اور بے معنویت کا احساس دور رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی دیوانگی پالتے ہیں۔ کوئی کبوتر اُڑاتا ہے کوئی پتنگیں، کوئی سری پائے کا شوقین بن جاتا ہے، کسی کو کھانوں کا شوق ہے، کوئی کرکٹ کا رسیا، اور کوئی فلموں کا شیدا۔ (بس سیاسی جماعتوں کی خاطر آپس میں دست بہ گریاں لوگ ہی انسانیت کے دائرے سے باہر ہیں)۔ احمد سلیم نے کتابوں، اخبارات کے ریکارڈز کا خبط پالا ہوا تھا۔ اُس کی اولاد نہیں تھی، لہٰذا میں نے اُس کی اپنی کتابوں کے لیے فکرمندی کے مراحل دیکھے ہوئے ہیں۔ جب وہ پونچھ روڈ پر اپنی بہن کے ساتھ رہا کرتا تھا تو دو کمرے فرش سے چھت تک کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ ان اولاد کتابوں کو نوکری لگوانے کی فکر میں تھا: کوئی سپانسر مل جائے، کوئی یونیورسٹی سٹوڈنٹس آ جائیں جو ان کتابوں کو ترتیب سے لگا دے، اخبارات کی فائلیں بنا دے….۔ پھر یہ فکر مندی تشویش میں بدل گئی۔ ایک این جی او نے کچھ رقم دی اور احمد سلیم اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ لاہور وہ ہمیشہ رکشے پر سفر کرتا اور پبلشروں سے بلامعاوضہ لی ہوئی کتب کے بنڈل اُٹھائے ہوتا۔
گزشتہ چند سالوں میں دو تین بار اسلام آباد گیا تو سوچا کہ احمد سلیم کا کچھ پتا نہیں، کب رخصت ہو جائے، لہٰذا مل لینا چاہیے۔ لیکن پھر خود کو لعنت ملامت کی کہ یہ کیا بکواس ہوئی؟ کیا کسی بزرگ ساتھی کے اندر موت کے امکانات ڈھونڈنے کے لیے ملا جائے اور اُس کے ساتھ صرف اِس لیے تصویر لی جائے کہ وہ جانے والا ہے؟ سیلفی والے لوگ کتنے ہولناک ہو گئے ہیں۔
میں اپنی معلومات کی حد تک بتاتا چلوں کہ احمد سلیم کیسا تھا۔ وہ تعلق ہمیشہ قائم اور یاد رکھتا تھا، کڑھتا تھا، مگر رواداری بھی دکھاتا تھا۔ پہلے کتابیں دے دیا کرتا تھا، یا فوٹوکاپی کروانے کی اجازت دیتا، مگر بعد میں انکار کر دیتا کیونکہ خود بھی نہیں معلوم تھا کہ کون سی کہاں رکھی ہے۔ وہ خود کشی کرنے والی دو تین خواتین کا بھائی بنا ہوا تھا: سارا شگفتہ، گوہر سلطانہ اور خود کشی کے خواب دیکھنے والی امرتا پریتم۔ ایک بار میں نے کہا کہ سلیم صاحب، یہ جو ساری بہنیں بنائی ہیں، اِنھوں نے خود کشی کیوں کی؟ ہنس کر بولے، یار یہ عجیب اتفاق ہے….۔ بس وہ اکثر باتوں کو یونہی ٹال دیا کرتا تھا۔
1994ء میں فرنٹیئر پوسٹ (جسے ہم فرنٹیئر پوست بھی کہتے تھے) کے مالک نے فرنٹیئر پبلی کیشنز کے نام سے ادارہ بنایا تو احمد سلیم مینیجر بنا۔ میری بہنوں کی شادی تھی اور بڑی ندامت کے ساتھ امی سے وعدہ کیا تھا کہ میں پچیس ہزار روپے دوں گا۔ پھر سمجھ نہ آئی کہ کہاں سے لاؤں؟ پبلشر تو چھپی ہوئی کتب کے بھی ایک ایک دو دو ہزار منتوں اور کئی کئی چکر لگوانے کے بعد دیا کرتے تھے۔ خبریں اخبار میں تین ماہ کی تنخواہ واجب الوصول تھی۔ سو استعفی دے کر دو ماہ کی تنخواہ نکلوائی۔ پھر میں احمد سلیم کے پاس چلا گیا اور مسئلہ بتایا۔ اُس کی ہمدردی لاتعلق سی ہوتی تھی۔ بولے، ایک لیفٹسٹ کارکن تھا، گورچرن سنگھ سہنسرا، اُس کی دو گورمکھی کتابیں ترجمہ کر دو: دیکھے سنے پٹھان اور وہ بھی دن تھے۔ میں نے تین چار ہفتے میں مسودہ اُسے دیا، اُس نے مجھے دس ہزار دے دیے۔ مگر ادارہ بند ہو گیا، کتابیں کبھی نہ چھپ سکیں، اور نہ احمد سلیم مجھے کبھی بھولا۔
احمد سلیم زندگی کا سوتیلا بچہ تھا، اِس لیے شادی نہ کی یا کی اور چل نہ سکی۔ اب وہ نہیں رہا تو شاید اپنی کتب یتیم چھوڑ گیا ہو گا۔ کوئی سیانا ہو تو اُسے اُس کی انگلش، اردو، گورمکھی، ہندی اور پنجابی کتب، اخبارات کی فائلوں میں ہی دفن کرے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اُس کی اولاد بھٹکے گی، کسی ادبی ادارے کی لائبریریوں میں۔
(نوٹ: میں نے کہیں صیغۂ جمع اور صیغۂ واحد قصداً استعمال کیا ہے)

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply