وارث شاہ بطور مؤرخ /حصہ سوم۔۔کاشف حسین سندھو

احمد شاہ اور نادر درانی کے بعد ہم وارث شاہ کے مقامی حاکموں کے بارے خیالات دیکھنے کی کوشش کرینگے
: عامل چور تے چوہدری جٹ حاکم وارث شاہ نوں رب وکھایائی
: جدوں دیس تے جٹ سردار ہوئے گھروگھری جاں نویں سرکار ہوئی

اشراف خراب کمین تازہ زمیندار نوں وڈی بہار ہوئی
چور چودھری یار نے پاکدامن بھوت منڈلی اک تھوں چار ہوئی
وارث جنھاں نے آکھیا پاک کلمہ بیڑی تنھاں دی عاقبت پار ہوئی

پہلا مصرعہ الگ ہے اور باقی کا ایک ہی بند ہے، پہلے مصرعے میں وارث شاہ نئے نئے مقامی حاکموں کو جو سکھ پنتھ سے تعلق رکھتے تھے کے بارے کہتے ہیں کہ رب نے مجھے یہ دن بھی دکھائے ہیں کہ چوہدری جٹ حاکم بن گئے ہیں اور عامل یا انکی جانب سے مالیہ وصول کرنے والا چور ہے اس مصرعے میں وارث کی حیرانی جھلکتی ہے وہ مغلوں اور افغانوں کی جگہ مقامیوں کے حکومت حاصل کر لینے کو عجیب یا ناممکن کا ممکن ہونا سمجھ رہے ہیں اگلے چار مصرعوں کو ساتھ ملا کر دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگرچہ وہ بیرونی دھاڑویوں سے شدید ناخوش تھے لیکن مقامی حاکموں سے بھی انکی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور وہ انہیں بدعنوان راشی اور کرپٹ سمجھ رہے ہیں بس فرق یہ ہے کہ بیرونی دھاڑیل مال کے ساتھ جان عزت بھی لے جاتے تھے لیکن مقامیوں سے انہیں زیادہ شکایت کرپشن کے ضمن میں ہے ساتھ ہی پچھلے سے پچھلے مضمون میں کی گئی بات دوبارہ دوہرا دیئے جانے میں مضائقہ نہیں ہے کہ وارث نئی حکومت کو مذہبی بنیادوں پہ نہیں آنکتے وہ انہیں سکھ یا خالصہ کہنے کی بجائے جٹ ، زمیندار ، چوہدری حاکم ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جو کہ آجکے پنجاب کے لیے شاید ایک اجنبی شئے  ہے جہاں دھرم کی عینک سے ہر شے دیکھی جاتی ہے۔

وارث شاہ کے نئی حکومت کے بارے وچار ہم نے دیکھے اور پرانی مغل حکومت کی جو اسوقت حالت تھی اس پہ انکے تبصرے کچھ یوں پڑھنے کو ملتے ہیں
[: غولہ دنگنیئے ازبکے مال زادیئے غصے ماریئے زہر دیئے زہریئے نی
: شاہوکار دا مال جیئوں وچ کوٹاں دوالے چونکیاں پھرن لہور وانگوں
: جٹی جٹ دے سانگ تے ھون راضی پھڑے مغل تے دس کیہ لائیاں دا
: فوجدار تغیر ھو آن بیٹھا کوئی رانجھے دے پاس نہ پائے پھیرے
: آیا خوشی دے نال دوچند ہو کے صوبہ دار جیئوں نواں لاہور دا جی
: سارے ملک خراب پنجاب وچوں سانوں وڈا افسوس قصور دا اے

مصرعہ نمبر دو میں وہ کہتے ہیں کہ ساہوکار کا مال کوٹھیوں میں پڑا ھے اور اسکے گرد چوکی یا چونگی والے پھرتے ہیں اسکے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں اول تو یہ کہ ساہوکار کے مال کو لہور کی حکومت کا تحفظ حاصل ہے دوسرا یہ کہ ساہوکار سے ٹیکس وصولی کے لیے مغل حکام بوجہِ پتلی مالی حالت کے اتاؤلے ہوئے رہتے ہیں دونوں صورتیں ہی ملکی انتظام کی بربادی پہ دلالت ہیں پہلا مصرعہ ہیر کی ماں کی جانب سے ہیر کو دیئے گئے طعنوں پہ مشتمل ہے جس میں وہ ایک لفظ “ازبکے” استعمال کرتی ہے اس لفظ کے بیان کیوجہ سمجھنا مشکل ہے لیکن بہرحال یہ لفظ مغلوں کے سب سے بڑے قبیلے ازبکوں جس سے بابر کا بھی تعلق تھا کو برا بھلا کہنے سے متعلق ہے چوتھے مصرعے میں وارث کہتے ہیں کہ رانجھا یوں اکیلا بیٹھا ہے جیسے مغلوں کا نیا فوجدار آئے تو کوئی اہلکار نزدیک نہیں آتا۔

ڈاکٹر اعجاز اسکی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغلوں کے آخری دور میں انتشار اسقدر تھا کہ منصبدار تیزی سے تبدیل ہوتے تھے اور اہلکار ابھی نئے حاکم سے شناسائی ہی نہیں بنا پاتا تھا کہ وہ تبدیل کر دیا جاتا تھا تیسرا مصرعہ مغلوں اور مقامی جٹ حاکموں کے برے رشتے کی وضاحت ہے ڈاکٹر اعجاز اسکی رسمی تشریح سے اختلاف کرتے ہیں جو یہ تھی کہ مقامی جٹ مغلوں کیجانب سے بازپرس کرنے پر سنتوں صوفیوں کا بھیس بنا کر جنگلوں میں بھاگ جاتے ہیں یہ سکھ لشکروں کی جانب اشارہ تھا ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ وارث شاہ یہاں ہیر کے وارث مسلمان جٹوں پہ تبصرہ کر رہے ہیں تو ممکن نہیں ہے کہ وہ اسے یکدم بالکل مختلف تحریک کی جانب لے جائیں یہ اشارہ مسلم جٹالی کیجانب ہے جو آپسی رشتوں پہ راضی رہتے ہیں لیکن جب کوئی مغل دست درازی کرتا ہے تو یہ جان باؤلوں کا روپ دھار لیتے ہیں اور کسی غیرت کا مظاہرہ نہیں کرتے بہرحال یہ مصرعہ ہنوز تشریح طلب ہے چوتھے مصرعے میں وارث شاہ لہور میں مال کی کثرت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس شہر میں صوبہ دار بہت خوشی سے قیام کرتا ہے اور آخری مصرعے کے پہلے حصے میں وہ پنجاب کو “ملک خراب ” کہتے ہیں جو ماراماری کی زد میں تھا اور دوسرے حصے کی تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ یہ شعر ہیر کے اختتامی حصے میں 1780 کے آس پاس لکھا گیا تو تب تک قصور سے پٹھان اقتدار ختم ہو جانے کے بعد سکھ اقتدار شروع ھہو چکا تھا جہاں انکے استاد بھی مقیم تھے تو یہ صورتحال انکے لیے ناپسندیدہ تھی کیونکہ قصور مسلسل دونوں فریقوں کے مابین میدانِ جنگ بنا ہوا تھا!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply