نکاح اور کفو کا مسئلہ/اعزاز کیانی

خاندان معاشرتی نظم کی بنیادی اکائی ہے۔ خاندان کی تشکیل کا سنگ بنیاد نکاح ہے۔نکاح ہی کے ضمن میں ایک مختلف فیہ مسئلہ نکاح میں کفو کا اعتبار ہے۔

کفو کے لغوی معنی برابری, ہمسری, ہم رتبہ و ہم پلہ کے ہیں۔ قرآن مجید میں بھی یہ لفظ سورہ اخلاص میں انہی لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

نکاح میں کفو سے مراد یہ ہے کہ جب کسی خاتون کا رشتہ کیا جائے تو یہ دیکھا جائے کہ جس جگہ اس کا رشتہ طے کیا جارہا ہے کیا وہ اس کے برابر و مساوی کا رشتہ ہے یا نہیں۔

امام ابو حنیفہ و دیگر آئمہ کے نزدیک کفو کا اعتبار حسب ذیل چھ امور میں ہے۔
1) دین 2) نسب 3) پیشہ 4) مال 5) آزاد 6) مسلم و نو مسلم

امام مالک و علامہ قرطبی وغیرہ کے نزدیک کفو کا اعتبار صرف دین و تقوی میں ہے۔

میرے نزدیک کفو نہ لوازم نکاح میں سے اور نہ شرائط نکاح میں سے ہے بلکہ یہ ایک عملی تدبیر ہے۔تجربہ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ “بے جوڑ و بے ہنگم” رشتے اکثر و بیشتر خانگی زندگی میں مسائل پیدا کرتے ہیں۔

چنانچہ دوران رشتہ اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ لڑکے اور لڑکی میں ہر پہلو سے ممکنہ حد تک مطابقت و موافقت ہو سکے ۔ بصورت دیگر اگر دونوں کا پس منظر بالکل جدا جدا ہے یا انکی سوچ میں واضح خلیچ و تفاوت ہے تو یہی چیز ہے جو زوجین کے مابین “نفسیاتی بعد” پیدا کرتی ہے جس کا آخری نتیجہ باہم نفرت ہوتا ہے۔

اسلام میں کفو کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا اسکی نوعیت و غائیت یہی ہے۔

چنانچہ قرآن مجید میں نکاح میں کفو کے مسئلے کو سرے سے موضوع بحث ہی نہیں بنایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں نکاح کا ذکر کیا گیا وہاں اسکو اپنے عموم میں بیان کیا گیا ہے بلکہ بعض مقامات پر خود اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں کو لونڈیوں سے نکاح کا حکم دیا ہے, مثلاً سورہ بقرہ 221, سورہ النساء 25.

رسالت مآب نے بھی کفو کی کوئی تعریف و معیار متعین نہیں کیا بلکہ رسالت مآب سے اس بارے میں جو کچھ منقول ہے اسکی نوعیت و غائیت بھی تلقین کی ہے کہ نکاح کفو میں کیا جائے۔چنانچہ خود رسول اللہ اور اصحاب رسول نے متعد ایسے نکاح کروائے ہیں جو مروجہ تصور سے مطابقت و ہم آہنگی نہیں رکھتے ہیں۔ابوالہند حجام کا نکاح, زینب بنت جحش کا نکاح, سلمان فارسی کا نکاح, ابن مسعود اور بلال حبشی وغیرہ کا نکاح اس کی نمایاں امثال ہیں۔

کفو کی بحث دراصل ماضی کے قبائلی عرب تمدن میں پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ وہاں سے ہی ان مباحث نے جنم لیا کہ غیر قریش قریش کا کفو نہیں, عجمی عربی کا کفو نہیں , خاندانی آزاد موجودہ نسل میں آزاد ہونے والا کا کفو نہیں ہے۔ سید و غیر سید کے مابین نکاح کی بحث بھی اسی نوعیت کی ہے. چنانچہ امام مالک, قاضی ابوبکر جصاص اور علامہ قرطبی وغیرہ نے نزدیک غلام کا عربی عورت سے نکاح جائز ہے۔

میرے نزدیک درست موقف بہرحال یہی ہیکہ ہر مسلمان عورت کا ہر مسلمان مرد سے نکاح جائز ہے, البتہ عملی زندگی کے زمینی حقائق اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں رشتہ و تعلق کے قیام کے وقت رشتے و تعلق کے دوام کی خاطر تمام جہات کا لحاظ کیا جائے اور ممکنہ حد تک بہترین کا انتخاب کیا جائے۔ اس دور میں علاوہ دیگر معیارات کے ایک اہم معیار تعلیم بھی ہے جس کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔

یہ بات کہ بہترین کا انتخاب ہو بھی مجرد نکاح ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر ہر کام اس حکمت عملی کا متقاضی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors

“آنکھ موند کر اور حقائق سے چشم پوشی کر کے کیا جانے والا ہر کام غیر ذمہ داری کا عکاس ہوتا ہے۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply