ادراک اور حقیقت، سچ اور رائے/یاسر جواد

ایک ہوا کرتا تھا subjective idealism جس کا ترجمہ موضوعی مثالیت پسندی کیا گیا۔ اِس کی بنیاد یہ خیال ہے کہ ذہن کے سوا کچھ بھی موجود نہیں۔ آپ مادی چیزوں کو تجربہ تو کر سکتے ہیں لیکن اُن کا وجود صرف اِس لیے ہے کہ آپ اُن کا ادراک کرتے ہیں۔ یعنی درخت کو آپ موجود سمجھ رہے ہیں تو وہ موجود ہے، ورنہ نہیں۔ برکلی اور کانٹ اِس کے شارح تھے۔

آئیڈیلزم کی بیش تر صورتیں حقیقت سے فرار ہیں۔ آخر ہم سب فکشن میں ہی تو رہنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ادب کہانیاں، فلمیں اور ڈرامے کیوں ہوتے۔ مگر فکشن فرار نہیں، پناہ گاہ ہے۔ ’سچ‘ کے بارے میں موجود رجحانات فرار ہیں۔ آپ کو اکثر گفتگو سے پہلے یا بعد ایسے جملے سننے کو ملیں گے: ’’آپ کی اپنی رائے ہے اور میری اپنی،‘‘ ’’آپ اِسے چھ سمجھتے رہیں، مجھے یہ نو لگ رہا ہے،‘‘ اور ’’آپ کا اپنا سچ ہے میرا اپنا۔‘‘

یہ پوسٹ ماڈرن کیفیت کی بھونڈی صورت ہے، یا یوں کہہ لیں کہ بھونڈی صورتوں میں سے ایک ہے۔ اِس میں سب سے پہلے تو رائے یا ’سچ‘ کو مطلق اور قطعی مان لیا جاتا ہے اور اِسے اپنا ’فلسفہ‘ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب کسی تضاد کی طرف توجہ دلائی جائے تو جواب ملے گا، ’’وہ اُس دور کا سچ تھا، یہ آج کا سچ ہے۔‘‘ لیکن اگر کوئی مطلق سچ ہے تو وہ بدلتا کیوں ہے؟

سچ سے زیادہ خطرناک چیز رائے ہے۔ ہم اپنے سچ کو جتنا زیادہ جتاتے ہیں، اپنی رائے کو اُتنا ہی زیادہ منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میلان کنڈیرا کے ایک ناول میں ایک خاتون کردار سوئمنگ پول پر نہاتے ہوئے اعلان کرتی ہے: ’’بھئی مجھے تو فلاں شیمپو بہت پسند ہے۔‘‘ اگر پسند ہے تو باقی سننے والے کیا کریں؟ اس کا اعلان کرنے یا رائے دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آپ کسی ٹوتھ پیسٹ، کموڈ کلینر، سر درد کی گولی، قبض سے بچنے کی تراکیب، بہترین سیاسی نظام، ہارون الرشید کے دور، ہندو مذہب، گوتم بدھ، بٹ کڑاہی، باٹا شوز، ڈومینوز پیزا، یا پیمپرز کے بارے میں بات کر کے دیکھ لیں، آپ کو فوراً ایک ’رائے‘ مل جائے گی۔

دوبارہ یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ لاعلمی رائے بن گئی ہے۔ نیز ’رائے‘ ظاہر کرنے اور ’دینے‘ کے آسان اور سستے طریقے دستیاب ہونے کی وجہ سے ان کی فراوانی بھی ہے۔ آپ کنور نوڈلز کے بارے میں رائے دیتے ہیں، ہر یوٹیوبر اور مضمون نگار رائے ’مانگتا‘ ہے۔ ہوٹل میں کھانا کھانے کے  بعد کارڈ پُر کرتے ہیں اپنی رائے دینے کے لیے۔ دیپکا کی کمر اور نورا فتحی کے کولہوں کے متعلق بھی ایک رائے ہے۔ رائے ’تاثر‘ نہیں ہوتی۔

میرا خیال ہے کہ آپ اپنے سچ اور رائے کے مطابق ایک دن بھی زندگی نہیں گزار سکتے۔ مثلاً آپ سوچیں کہ بس یا ٹرک نہیں ہے، تو بس نہیں ہے۔ ایسے میں سڑک پار کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں۔ آپ کا subjective idealism آپ کے ساتھ ہی ہلاک ہو جائے گا۔

یہ یاد رکھنا ہو گا کہ فلسفہ سوال یا مسئلے کو حل نہیں بلکہ تحلیل اور مؤخر کرتا ہے۔ سائنس اُس مسئلے سے نمٹے کا ایک کارآمد عارضی طریقہ پیش کرتی ہے۔ عقیدہ اُس سے فرار کا طریقہ سکھاتا ہے۔ جبکہ رائے سب سے عامیانہ اور تاثراتی چیز ہے جسے فلسفہ یا سائنس بنانا ہی تعلیم ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اپنے اپنے سچ اور رائے کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہی سب سے زیادہ گفتگو بھی کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ بھئی، اگر اپنا سچ اور رائے ہے تو موج کرو، بحث کیوں کرتے ہو؟

Advertisements
julia rana solicitors

اپنے ادراک کو بدلنے سے حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اپنی حقیقت کو درست کریں تو ادراک بھی بدل جائے گا۔ بلوریں کُرے میں رہنے والی مچھلی کو ہر چیز curve میں دکھائی دیتی ہے۔ اُس کا ادراک مسخ شدہ حقیقت ہوتا ہے، ہماری طرح۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply