تاریخی جبر یا تاریخ کا جبر۔۔ فراست محمود

تاریخ کا کوڑا دان کبھی کھنگالیں تو انتہائی عجیب وغریب،خوبصورت،دلکش،زندگی کی پُر تعیش نعمتوں سے سجے ورق بھی نظر سے گزریں گے اور انتہائی بدصورت بدترین ظلم وسفاکیت سے بھرے لمحے بھی پڑھنے کو مل جائیں گے ،اسی بِنا پہ کبھی تاریخ آپ کو خوبصورت لگے گی اور کبھی ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے سے دل نا مراد خواہ مخواہ کی اذیت میں مبتلا نظر آئے گا۔

کبھی کبھی معصوم لوگ ظالم و جابر کے ظلم کی بھینٹ خواہ مخواہ چڑھ جاتے ہیں اور کبھی ان معصوموں کی معصوم سی بد دعا اپنا کام دکھا جاتی ہے اور ظالم و جابر خود کسی اپنے سے بڑے ظالم کے ظلم کا شکار ہو جاتے ہیں۔

غرض تاریخ ان چھوٹے بڑے تمام واقعات کو اپنے ماتھے کا جھومر بنائے آنے والی نسلوں پہ آ شکار ہو جاتی ہے۔

تاریخ کے لکھے گئے سبق بڑے سبق آموز ہوتے ہیں اگر ان سے عبرت حاصل کر لی جائے تو۔۔ مگر وہ انسان ہی کیا جو خود پہ اذیت سہے بغیر عبرت حاصل کر لے اور تاریخی اسباق  سے کچھ سبق سیکھ جائے۔
یہ تحریر آج کے “تاریخی عدالتی فیصلے” جو سابق آمر جنرل پرویز مشرف کی پھانسی اور لاش کو لٹکائے جانے کے حکم کے متعلق لکھی گئی ہے۔

جج جرنیل یا سیاستدان تینوں ریاست پاکستان کے مضبوط ترین ستون ہیں تینوں ایک دوسرے کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں اور تینوں ایک دوسرے کو نیچا بھی دکھاتے ہیں۔تینوں ہی اپنے عہدوں اور مناصب کی بنا پہ اپنے مفادات عزیز رکھتے ہیں اور تینوں کی طرف سے کیے گئے فیصلے اور عوامل ایسے ہی ہوتے ہیں۔لیکن اقتدار اور طاقت کا نشہ اتنا اندھا ہوتا ہے کہ بیٹا باپ کو اور بھائی بھائی کو مروا دیا کرتا ہے۔اس لئے وقتاً فوقتاً یہ تینوں ایک دوسرے کو اپنی طاقت دکھاتے رہتے ہیں اور ماضی میں سیاست دان ہمیشہ ان دونوں سے کمزور ثابت ہوئے ہیں اور سزائیں بھگتتے رہے ہیں مگر اب کی بار قسمت عجیب کھیل کھیل گئی اور طاقت کے دو اہم ستون جج اور جرنیل آپس میں طاقت دکھاتے نظر آنے لگے ہیں اور سیاستدان فائدہ حاصل کرتے۔

خیر موضوع کی طرف رُخ کرتے ہیں ۔سابق جنرل پرویز مشرف کو  پاکستان کی خصوصی عدالت نے آئین معطلی کے جرم میں اعلیٰ غداری کا سرٹیفکیٹ عطا کرتے ہوئے نا  صرف پھانسی کی سزا سنائی ہے بلکہ نعش کو تین دن تک ڈی چوک اسلام آباد میں لٹکانے کا حکم جاری کیا ہے۔
جنرل پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو دہلی انڈیا میں پیدا ہوئے۔اور 1961 کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ پاکستان آرمی کا حصے بنے۔1965،71،98 پاک بھارت جنگوں میں حصہ لیا اور 1996 تا 2001 افغان سول وار بھی لڑیں۔سپیشل سروس گروپ اور ڈی جی ملٹری آپریشن بھی رہے۔1990 میں میجر جنرل کے عہدے پہ ترقی پائی اور 1998 میں بطور آرمی چیف مقرر ہوئے۔
اکتوبر 1999 میں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف سے متصادم ہوئے اور مارشل لاء لگا دیا اور 2001 میں پاکستان کے دسویں صدر کا حلف اٹھایا۔اور الیکشن 2008 تک مسند اقتدار پہ براجمان رہے۔پاکستان فوج کی طرف سے تمغہ امتیاز اور تمغہ بسالت حاصل کیا۔

مشرف کے دور اقتدار میں لال مسجد آپریشن،اکبر بگٹی قتل،طالبان آپریشن،روشن خیال پاکستان اہم امور ہیں جو انجام دیے گئے ہیں۔مشرف نے 2002 میں آئین معطل کیا اور ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب ہوئے اور 2007 میں ایمرجنسی نافذ کر کے پی سی او کے تحت ججوں سے حلف لیا۔اسی آئین معطلی کے جرم میں جنرل پرویز مشرف “غدار پرویز مشرف “قرار دئے گئے اور پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

اس فیصلے سے عوامی طور پہ عدالت کو رسوائی جب کہ پرویز مشرف کو پذیرائی مل رہی ہے۔کچھ لوگ قانون کی بالادستی کا راگ الاپ رہے ہیں اور کچھ اعلیٰ ادارے کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔خیر ردِ  عمل اب جو بھی  ہو،لکھنے والے نے اپنا فیصلہ لکھ دیا ہے اور فیصلہ درست ہے یا غلط، تاریخ اس بات کا فیصلہ خود کر لے گی۔

پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ کا پہلا جرنیل ہے جسے عدالت سے غداری کا سرٹیفکیٹ جاری ہوا ہے اور پھانسی کی سزا بھی ہوئی ہے اس لحاظ سے مشرف ہمیشہ ہی یاد رہیں گے۔
پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں نواز شریف کے اقتدار کا سورج نہ صرف ڈبویا تھا بلکہ خود مسند اقتدار پہ براجمان بھی ہو گیا۔اور 2007 تک پاکستانی ریاست اور سیاست کا طاقتور ترین جرنیل بھی بن گیا اور اقتدار پہ مسلط بھی ہو گیا۔

مشرف مارشل لاء لگانے والا واحد جرنیل نہیں تھا اس سے پہلے بھی جنرل ایوب،جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاء الحق صاحب ایسے تابندہ ستارے تھے جو مارشل لاء کا طوق اپنے گلے میں ڈال چکے ہیں۔مگر مقدر کا سکندر صرف پرویز مشرف نکلا اور غداری اور موت کا پروانہ اپنے نام کے ساتھ منسوب کروا بیٹھا۔

عوام کی ایک کثیر تعداد اس فیصلے پہ غم وغصہ میں مبتلا ہے اور کچھ لوگ احتجاج بھی کر رہے ہیں جب کہ 76 سالہ بیمار پرویز مشرف مرنے سے پہلے ہی غدار کہہ کر مار دیا گیا ہے۔وطن سے غداری ایسا طعنہ ہے جو کوئی فرد بھی اپنے نام کے ساتھ جوڑنے کو تیار نہیں ہوتا خواہ اس کے لئے اسے کوئی قیمت بھی چکانا پڑے۔

بظاہر اس فیصلے سے قومی اداروں کے درمیان تصادم کی فضا بنتی نظر آ رہی ہے مگر امید ہے فرد واحد کی سزا کو فرد واحد کی نظر سے دیکھا جائے گا اور ادارے اپنی حدود و قیود کے مطابق کام کرتے رہیں گے اور پاکستان کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔

بظاہر مشرف صاحب کی سزا علامتی ہی ہے اس پہ عمل درآمد مشکل ہی نظر آتا ہے مگر ایسے لوگوں کی علامتی سزائیں عملی سے بڑھ کر ہوا کرتی ہیں۔بھٹو مر کر بھی زندہ ہے اور مشرف کو غدار قرار دے کر زندہ ہوتے ہی مار دیا گیا ہے۔

سادہ عوام ایک سوال کرتی نظر آئی کہ تین جنگیں لڑنے والا پرویز مشرف غدار کیسے ہو سکتا ہے تو ان کے لئے عرض ہے جیسے 3 بار وزیراعظم رہنے والا غدار ہو سکتا ہے۔غداری اور حب الوطنی کا معیار جنگیں نہیں کردار ہوا کرتا ہے۔اس لئے پیارے پاکستانیو خدارا غداری و گستاخی کے سرٹیفکیٹ آئندہ احتیاط سے بانٹیے کہیں قسمت یہ طوق آپ کے گلے میں نہ ڈال دے۔پاکستانی عدلیہ اور پاکستانی فوج دونوں ہی اس ملک کے عظیم ادارے ہیں اور پاکستانی قوم کو دونوں سے محبت ہے اگر دونوں اپنے اختیارات حدود میں رہ کر استعمال کریں۔مشرف کی سزا تاریخ کا جبر ہے یا تاریخی جبر ہے آنے والی نسل یہ فیصلہ خود ہی تاریخ کے اوراق پڑھ کر کر لے گی۔

پاک فوج پائندہ باد پاک عدلیہ تابندہ باد
پاکستان زندہ باد

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ۔مجھے ذاتی طور پہ یہ جنرل پرویز مشرف بطور آمر پسند تھا مگر اس کے اقتدار کی طوالت نے دعا مانگنے پہ بھی مجبور کیا تھا کہ کاش 2007 میں اس کا اقتدار ختم ہو ہی جائے ۔ اور ذاتی طور پہ مجھے مشرف کو غدار قرار دینے اور نعش کو 3 دن لٹکانے کے حکم سے غصہ اور افسوس بھی ہوا ہے مگر بڑے لوگوں کی باتیں بڑے ہی جانتے ہیں کہ اس میں کیا مصلحت ہے یا اتنا سخت فیصلہ کیوں سنایا گیا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply