ایک ٹانگ کا مجسمہ۔۔۔ انعام رانا

سب کچھ ہی پڑھ دینے کی کوشش جیسی عادت کا اک برا نتیجہ ہوتا ہے کہ بھول جاتا ہے کہ کب کیا پڑھا تھا یا جو یاد رہا وہ کہاں اور کس کا لکھا ہوا پڑھا تھا۔ اب یہ ہی دیکھئیے کہ ایک ہیرو کی کہانی بار بار ذہن میں آتی ہے کہ جسکا مجسمہ بنایا گیا مگر کہاں پڑھا اور کس نے لکھا تھا؟ یاد نہیں آتا۔ بس اسی لطیفے کا سا حال ہوتا ہے کہ مومنو، نہ جانے کون سا صحرا تھا،اور اس میں نہ جانے کون سے دو نیک بزرگ ملے اور زیادہ بڑے بزرگ نے ذرا چھوٹے بزرگ کے کان میں نہ جانے کیا بات کی۔ بس مومنو اس بات پہ عمل کیا کرو۔

بحرحال یادداشت سے اترتے قصے میں کچھ یوں ہے کہ کسی علاقے کی اک قوم کی آزادی کی جدوجہد جاری تھی جس میں ایک مرد جری نے بڑھ چڑھ کر شجاعت دی۔ جنگ ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ مرد جری جنگ کے دوران ہی یا شاید زرا بعد اپنی وفاداری بدل گیا اور قوم کی نظروں میں غدار ٹھہرا۔ قوم کو اس کی غداری پہ تمام تر غصے کے باوجود مگر اسکی ان قربانیوں کا احساس بھی تھا جو اس نے جدوجہد آزادی میں دیں۔ سو فیصلہ ہوا کہ ہیرو کی ایک ٹانگ کا مجسمہ نصب کیا جائے گا کیونکہ جنگ آزادی میں یہ ہی ٹانگ تھی جو اس نے قوم کیلئیے قربان کی۔ باقی کا جسم غداری کی نظر ٹھہرا۔

چلئیے اس قصے کا آگا پیچھا یا تاریخی واقیعت تو مستند نہیں مگر “بینیڈکٹ آرنلڈ” اک مستند حوالہ ضرور ہے۔ امریکہ کی جنگ آزادی کا ایک ہیرو آرنلڈ۔ امریکہ، جو برطانیہ کی اک کالونی تھا، آزادی کی شمع روشن کئیے غلامی کے اندھیرے سے لڑنے اتر گیا۔ شروعات کے معرکوں میں ہی اس نے مضبوط برطانوی قلعہ ٹریگونڈروگا کی فتح میں اہم کردار ادا کیا اور بعد ازاں بھی داد شجاعت دیتے ہوے امریکہ کی جنگ آزادی کا ہیرو بن گیا۔ ہیرو کو مگر اپنے کردار کی داد تاریخ سے نہیں حال اور ہم وطنوں سے چاہیے تھی۔ سو جب اس سے جونیئرز کو ترقی دی گئی تو ہیرو اس احسان نا شناسی پہ ناراض ہو گیا اور برطانویوں سے جا ملا۔ اب سترہ سو پچھتر سے سترہ سو اناسی تک کے امریکی ہیرو کا کردار ختم ہوا اور اک برطانوی منحرف کا کردار شروع ہوا۔ جنگ ختم ہوئی، آرنلڈ انگلینڈ چلا گیا اور اٹھارہ سو ایک میں لندن میں وفات پائی۔ مگر امریکہ میں آرنلڈ ایک استعارہ بن گیا اک ایسے ہیرو کا جو غدار ثابت ہوا۔

یہ قصے،آپ سمجھ ہی گئے، ہمارے اپنے جنرل مشرف کی بدولت یاد آئے جنھیں عدالت آئین شکنی پہ غدار قرار دیتے ہوے موت کی سزا دے چکی اور فوج کے ترجمان انھیں ہیرو ثابت کرنے پہ تلے ہیں کہ ملک کی خاطر دو جنگیں لڑنے والا ایک آرمی چیف جو بھی ہو غدار کیسے ہو گیا؟ اک جمہوری حکومت کو برطرف کرتے ہوے اقتدار تو مشرف نے سن  نناوے میں سنبھالا مگر پچھلی حکومت نے مقدمہ درج کرواتے ہوے البتہ انکے دو ہراز سات کے جرم کو ہی یاد رکھا۔ اب نواز حکومت کا ختم کرنا، آئین میں جسٹس افتخار چوہدری جیسوں کی مدد سے تبدیلیاں کرنا بڑی غداری تھا یا دو ہزار سات میں آئین معطل کرتے ہوے ڈوگر جیسے جج کی مدد سے ایمرجنسی لگا کر اپنی حکومت بچانے کی کوشش؛ اس کا فیصلہ تاریخ کرے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ عدالت البتہ تاریخ اور جذبات سے زیادہ قوانین و دلائل کی محتاج ہوتی ہے۔ اور قانون اور دلائل ہی کی بنیاد پر عدالت نے طے کیا کہ مشرف آئین شکنی کرنے کی وجہ سے غدار ہیں اور سزائے موت کے مستحق۔

بھٹو صاحب اور دیگر آئین سازوں نے آئین میں جب ارٹیکل چھ ڈالا تو نہ جانے انکو خود کتنا یقین ہو مگر ابھی کچھ دن پہلے تک تو قوم کو مکمل یقین تھا کہ یہ فقط نمائشی ہے۔ آرٹیکل چھ قانون سے کھلواڑ کرنے والے کسی بھی شخص کو “ہائی ٹریژن” کا مرتکب ٹھہراتا ہے کہ جسکی سزا موت ہے۔ اب اس انگریزی اصطلاح کے معانی اک سے زائد ہیں، غداری، بغاوت، باغیانہ سازش۔ آئین سازوں نے اس انگریزی اصطلاح کو کن معانوں میں برتا یہ سوال طلب ہے۔ البتہ فوجی ترجمان کی حیرت اپنی جگہ بجا کہ ملک کی خاطر جنگیں لڑنے والا فقط “اک کاغذ کے ٹکڑے” کو معطل کر کے غدار کیسے ٹھہرا۔؟ یعنی کہ میری دادی جیسے کہتی تھیں کہ “ہئو فیر،  بندے بڈھی تو تھپڑ مار ہی لیندے نیں”(“کیا ہوا، شوہر بیوی کو تھپڑ مار ہی لیتے ہیں”۔ انکی نسل کو یہ سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ اس پہ برا کیا منانا)۔

آئین کسی بھی ملک کی سیاسی طور پہ مقدس ترین دستاویز ہوتی ہے۔ جو شخص اسکی عزت برقرار نا رکھ سکے یقینا وہ مجرم اور سزا کا مستحق ہے۔ ہم صدق دل سے جنرل پرویز مشرف کے ممنون ہیں کہ انھوں نے پینسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں قوم کیلئیے ڈیوٹی دی(یہ سوال اپنی جگہ کہ فوج کو کیرئر بنانے والے سے اسکے علاوہ کیا کچھ اور توقع کی جا سکتی ہے؟)۔ مگر یہ انکی “ہیرو زندگی” کا حصہ ہے۔ پھر وہ اس دور میں آئے جب انھوں نے جانتے بوجھتے آئین شکنی کی اور مجرم بنے۔ آپ کو لفظ غدار پسند نا ہو تو آئینی باغی یا باغی سازشی برت لیجئیے مگر مجرم تو وہ ہر صورت ٹھہرے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ فقط اک علامتی سزا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ بستر مرگ پہ پڑے اک لاچار بوڑھے کو پھانسی چڑھانے میں شاید اس قوم کو کچھ زیادہ دلچسپی بھی نہیں کہ برصغیر کی اخلاقیات و روایات اور مذہبیت اسکو ناپسند کرے گی۔ مگر اس فیصلے کی علامتی حیثیت ہے جس نے اس قوم کو حوصلہ دیا کہ ہمارے ہاں آئین محترم ہے اور مجرم خواہ کسی بھی طاقتور طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ بالآخر سزا پائے گا۔ یہ سزا شاید آئیندہ کے کسی طالع آزما کا ہاتھ تو نا روک سکے مگر اسکے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خوف ضرور برقرار رکھے گی کہ مستقبل اور ملک کی آئیندہ تاریخ اسے کس سلوک کا مستحق ٹھہرا سکتی ہے۔ ایسے زبردست اور دلیرانہ فیصلے پر محترم جج صاحبان کو سلام۔ امید ہے جلد نا صرف ان فوجی آمروں بلکہ انکا ہاتھ بٹانے والے ججز اور سیاستدانوں اور فوجیوں کو بھی علامتی ہی سہی سزائیں دے کر قومی مجرم ٹھہرایا جائے گا تاکہ آئندہ کوئی بھی ہاتھ آمریت کا قلم اٹھانے سے قبل تھرا اٹھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فوج ہماری ہے، یہ ملک ہمارا ہے اور یہ آئین ہمارے باہمی اور ہمارے انکے سب کے باہمی تعلق کی شرائط طے کرتی ہوئی مقدس دستاویز ہے۔ مشرف ہوں یا کوئی بھی آمر، ہم انکے ایک ٹانگ کے مجسمے سجانے کو تیار ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ انکا باقی بدن غدار ہی سمجھا جائے گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply