میری ایک ہزار کتابیں۔۔محسن علی خان

سن ڈوکو (Tsundaku) ایک جاپانی ٹرم ہے۔ یہاں سن (Tsun)کا مفہومی مطلب، اکٹھی کرنا/حاصل کرنا/جمع کرنا، جبکہ ڈوکو (Daku) کا مفہومی مطلب ” پڑھنا ” ہے۔
اگر ہم اس کو ملا کر پڑھیں تو سن ڈوکو کی اصطلاح اس شخص کے لیے استعمال ہوتی ہے جسے کتابیں جمع کرنے کا شوق ہوتا ہے۔وہ کتابوں کے ڈھیر اکھٹے کرتا ہے، اس کو ترتیب دیتا ہے، اپنی بک شیلف میں قرینہ سے رکھتا ہے، گاہے بگاہے اس پر جمی گرد کی تہہ صاف کر لیتا ہے، ان کتابوں کے آگے کھڑا ہو کر، گہری سوچ میں گُم پوز سے تصویر بناتا ہے، اس ادبی ٹائپ تصویر کو فیس بُک/ٹویٹر/انسٹاگرام/واٹس ایپ کے سٹیٹس/پوسٹ/ڈی پی وغیرہ کی صورت میں لگاتا ہے۔ لیکن کبھی ان جمع کی ہوئی کتابوں کو پڑھتا نہیں ہے۔

اسی طرح ایک اصطلاح ببلوفیلیا (Bibliophilia) ہے۔ جو کہ کتابوں کے رَسیا شخص کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کیٹگری میں وہ لوگ جگہ بنا پاتے ہیں جو نہ صرف کتب بینی کے شوقین ہوتے، بلکہ اپنے گلی/محلہ/سکول/کالج و دوستوں کی محفل میں کتابی کیڑے کے نام سے بھی مشہور ہوتے۔ یہ لوگ ورق گردانی میں ڈوب جاتے اور ایک یا دو نشستوں میں کتاب ختم کرتے خواہ وہ کسی بھی ژانرا (صنف) کی ہو، یعنی کے جاسوسی/تجسس/فکشن/ناول/عالمی/ادبی/کرائم/سائنس/تصوف/خودنوشت وغیرہ۔

مجھے جب اس جاپانی ٹرم کا پتہ لگا تو میں نے فوراً اپنی بُک شیلف کی طرف دیکھا۔ مجھے یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ مجھ پر یہ ٹرم لاگو نہیں ہو رہی۔ یہ میرے لئے بہت خوشی کی بات ہے۔
اس سے پہلے کہ مجھ پر کوئی ایسی ٹرم لاگو ہو، جس کا بنیادی مطلب یہ ہو ” ایسا شخص جو خود تو کتاب پڑھ لیتا ہے، لیکن کسی اور کو اس کے متعلق آگاہ نہیں کرتا “۔ ابھی تک میری نظر سے ایسی ٹرم نہیں گزری۔ چونکہ مجھے نہیں پتہ تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس ٹرم کا وجود نہیں۔ ضرور ایسی ٹرم بھی ہو گی۔ اس سے پہلے کہ مجھے پتہ لگے، میں پہلے ہی اس کے دائرے سے باہر آنا چاہتا ہوں۔

سن ڈوکو کے ساتھ ایک اور المیہ کا ذکر کرنا چاہوں گا، جو کہ پی ڈی ایف یا آن لائن کتابی صورت میں سامنے آیا ہے۔ کتاب کو چھوئے بغیر، محسوس کیے بغیر، خوشبو سونگھے بغیر کیسے ہم اپنی آنکھوں کے راستے سینے میں جذب کر سکتے۔ اس کی مثال تو یہی ہے کہ آپ ایک خوبصورت فارم ہاؤس میں جاتے ہیں۔ وہاں کی تروتازہ آب و ہوا سے اپنا دل و دماغ معطر کرتے ہیں، چراگاہ میں چرتے جانوروں کو دیکھتے ہیں، خوبصورت رنگوں میں ڈوبے پھولوں سے آنکھوں میں ٹھنڈک بھرتے ہیں۔ خوب گھومتے پھرتے ہیں۔ لیکن کچھ دیر بعد آپ کو یہ سب چھوڑ کر واپس جانا ہوتا ہے، کیونکہ یہ آپ کی ملکیت نہیں ہے، آپ کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔ یہ لمحات عارضی ہیں۔ جب تک آپ اندر تھے ہر شے دلکش تھی، جیسے ہی باہر آۓ آپ تنہا ہو گئے۔

جب تک آپ کتاب کو اپنے ہاتھوں میں نہیں پکڑیں گے، اس کو بک شیلف میں نہیں رکھیں گے، اس کو دیکھیں گے نہیں تب تک آپ کی ملکیت نہیں ہو گی۔ آپ تنہا ہوں گے۔
آپ اگر کسی اور میڈیم سے بھی کتاب پڑھنا چاہتے تب بھی آپ اس کتاب کو خرید کر ضرور پڑھیں اپنے پاس رکھیں، اپنی بک شیلف میں سجائیں۔ آپ کو تنہائی کا احساس نہیں ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیموئیل بٹلر کا کہنا ہے کہ “کتابیں قیدی روحوں کی طرح ہوتی ہیں یہاں تک کہ کوئی ان کو کسی شیلف سے نیچے لے جائے اور آزاد کردے۔”
بٹلر کی اس بات کو پورا کرنے کے لئے میں ایک کتابی سلسلہ ” میری ایک ہزار کتابیں ” کے نام سے شروع کرنے جا رہا ہوں۔ ویسے تو میرے پاس کوئی ایک سو سے کچھ اوپر کتابیں ہوں گی۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسان کے پاس کم از کم ایک ہزار ایسی کتب ہوں جو اس نے پوری چاہت کے ساتھ پڑھی ہوں اور ان سے باقی کتاب دوست لوگوں کو بھی آگاہ کیا ہو۔
اس لئے جو کتابیں فی الحال میرے پاس موجود ہیں ان کا تعارف آپ سے کرواتا رہوں گا۔ اور اپنی بُک شیلف کو وسعت دے کر ایک ہزار کتابوں تک وسیع کروں گا۔ شاید اس سلسلے کو تین سال درکار ہوں یا پانچ سال، کتابیں خریدتا رہوں گا، ان پر مختصر سا ریویو لکھتا رہوں گا، علم کی کشتی پر سوار ہو کر، ادب کے دھارے کے ساتھ بہتا رہوں گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply