کٹ پیس اور غدار پرویز مشرف۔۔ذیشان نور خلجی

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے “مشرف کیس کا ‏فیصلہ غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر شرعی ہے۔” جیسے میں نیازی ہونے کے ساتھ ساتھ آدھا مہاجر ہوں۔ اسی طرح میں آدھا قانون دان اور پورا مفتی بھی ہوں۔ میں ہی کیا، یہاں تو پورا ملک مفتی بنا بیٹھا ہے۔ اور عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کی حیثیت سے، مجھے وزیراعظم کے ساتھ ساتھ مفتی اعظم بھی سمجھا جائے۔

مشرف کو پھانسی سنانے کے فیصلے پہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری جذباتی ہوگئے، انہوں نے کہا “رحم کریں۔” کیونکہ آج نہیں تو کل، ہماری بھی باری ہے۔

ایک دوسرے بیان میں ان کا کہنا تھا “ججز کو نہ لفظ چننے کی اہلیت ہے، نہ بیان کا سلیقہ-” حالانکہ یہ خوبیاں صرف اور صرف تحریک انصاف سے منسوب ہیں۔ اس لئے معزز جج صاحبان اپنی ذاتی تخلیقات کا مظاہرہ کریں۔ اور ہمارا ٹیلنٹ چرانے کی کوشش نہ کریں۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا ہے “جو لوگ جیلوں میں ہیں، وہ جلد رہا ہوں گے۔” کیونکہ ساری اپوزیشن اندر ہونے کی وجہ سے، پہلے ہی جیلوں میں جگہ کم ہے۔ اور اگلی باری ہماری ہے۔ ایسے میں پہلی سواریاں اتریں گی، تو ہی اگلی چڑھیں گی نا۔

وفاقی وزیر توانائی اسد عمر نے کہا ہے “پاکستانیوں کو اپنی معاشی قسمت بدلنے کے لئے محنت کرنی چاہیے۔” ‘ساڈے تے نہ رہنا’ ویسے بھی ہم کافی محنت کر چکے ہیں، لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا۔اس لئے آئندہ ہم بیانات پہ اکتفا کیا کریں گے۔عمل آپ نے خود کرنا ہے۔ اور مشورہ دینا ہی اصل کام ہے۔ حالانکہ عوام کو اس کی بھی ضرورت نہیں،کہ مفت مشوروں میں وہ پہلے سے ہی خود کفیل ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا ہے “‏میرا کوئی ایجنڈا نہیں، صرف عوام کی خدمت کے لئے آیا ہوں۔” اور معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے، آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ عوام کی خدمت والی بات، صرف بیان کا وزن پورا کرنے کے لیے کہی ہے۔ ورنہ عقل مند حضرات صرف ‘میرا کوئی ایجنڈا نہیں’ پڑھیں اور لکھیں۔ شکریہ

آئیے، اب کچھ غدار غدار کھیلیں۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ یہ کھیل آج شروع نہیں ہوا۔ بلکہ نواز شریف، بے نظیر اور پیچھے چلتے چلتے محترمہ فاطمہ جناح سے شروع ہوا۔ اور بھلا ہو ملک الموت کا، کہ قائداعظم کی کھٹارہ ایمبولینس بیچ سڑک کے خراب ہوگئی۔ اور وہ وقت سے پہلے ہی مرحوم ہوگئے۔ وگرنہ یہ کہانی شاید الف سے شروع ہوا کرتی۔

لیکن آج ہم سرٹیفائیڈ غدار جنرل پرویز مشرف پہ بات کریں گے۔ ان کے بخیے ادھیڑنے سے پہلے، آپ کو بتاتا چلوں کہ میں ذاتی طور پر پرویز مشرف کا مداح ہوں۔ ایک فنون لطیفہ کے شوقین انسان، رقص و سرود کے دلدادہ، اور خوبصورت قسم کے  سموکر۔ انہوں نے جو نعرہ دیا تھا وطنیت پرستی کا “سب سے پہلے پاکستان” ۔ ایسا نعرہ ہمیں کوئی سیاست دان نہ دے سکا۔ ان سیاست دانوں نے تو ہمیں قومیت پرستی میں الجھائے رکھا۔ اپنے اپنے مفادات کے لئے زبان کی بنیاد پہ، صوبے کی بنیاد پہ تقسیم کیے رکھنا، ان کا مشغلہ تھا۔ اور پرویز مشرف کے روشن خیالی کے نعرے کے طفیل ہی، ہم ضیاءالحق شہید کی شدت پسندی سے نکل سکے۔ ورنہ یہاں کئی سیاست دان اپنے تئیں امیرالمومنین بنے بیٹھے تھے۔ اور قوم کے لئے بھی مشرف کی بہت سی خدمات ہیں، جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ وہ ایک فور سٹار جنرل تھے۔ چالیس سال تک وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہے۔ تین جنگوں میں حصہ لیا۔ گو کہ یہ ان کی ڈیوٹی تھی۔ اور انہوں نے اس کا حلف اٹھایا تھا۔ لیکن ہم رعایتی نمبر دیتے ہوئے، ان کی یہ خدمات قوم پہ احسان بھی سمجھیں۔ پھر بھی آئین کو پامال کرنے کا جرم، جو انہوں نے کیا تھا۔ اس کی سزا تو انہیں ملنی چاہیے۔ ریاست پاکستان کے شہریوں کے درمیان ہوا ایک عمرانی معاہدہ، جس کے ہم سب پابند ہیں۔ اس معاہدے کو اپنے بوٹوں تلے روندنے والے کو سبق تو سکھانا ہو گا نا۔ تاکہ آئندہ کوئی اور ناخلف جرنیل ہمارے بنیادی حقوق سلب کرنے کی جرأت نہ کرے۔اور پھانسی کے فیصلے کو دیکھا جائے، تو پرویز مشرف جیسے غدار کے لئے موت کی سزا کا فیصلہ ایسا ہی ہے، کہ آئین میں اس سے بڑی کسی اور سزا کا ذکر نہیں۔

پرویز مشرف کے کردار کو اس مثال سے سمجھنا آسان ہوگا۔ ایک نوکر چالیس سال تک آپ کی خدمت پہ معمور رہے، اکتالیس سال وہ آپ کے ہی گھر ڈاکہ ڈالے، اور آپ کو حبسِ  بے جا میں رکھے،تو کیا آپ اس کے چالیس سال کو مد نظر رکھتے ہوئے، اسے وفادار ہی سمجھیں گے؟

شاید آپ سمجھ نہیں سکے۔۔ مزید واضح کرتا ہوں۔ میں ایک جمہوری ملک کا شہری ہوں۔ میرے لب آزاد ہیں۔ ریاست میرے حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ مجھے بولنے کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن میں پھر بھی اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے، لگے بندھے انداز میں، اور ریاست کے ایک تنخواہ دار فوجی، جناب میجر جنرل آصف غفور کے بیان سے ایک لفظ ‘کتا’ مستعار لے کر، آپ قارئین کی خدمت میں ایک سوال رکھتا ہوں۔
میرے ہی ٹکڑوں پہ پلنے والا ایک کتا، جو دس سال میرے گھر کی حفاظت پہ معمور رہے( چالیس سال کتے کی طبعی عمر نہیں ہوتی، ورنہ زیادہ اچھی مماثلت بنتی) اور گیارہویں سال وہ ‘ہلکا’ ہو کر، مجھ ہی کو کاٹ لے،تو کیا میں اس کو وفادار سمجھوں؟ یا گولی ماروں؟

اور عدلیہ کی طرف سے پرویز مشرف کو غدار ڈکلئیر کرنے کے بعد، جن بوٹ پالشیوں کو مشرف کی خدمات کے افسانے یاد آرہے ہیں۔ ان سے صرف اتنا کہوں گا کہ ان کی خدمات کا اعتراف تو ہر محب وطن پاکستانی کو ہے۔ لیکن ان کی خدمات سے، ان کے جرائم کی پردہ پوشی کرنا، ایک بیمار ذہنیت کی عکاسی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج وقت ہے،
موقع ملا ہے،
خدارا ! تاریخ کی درست سمت میں کھڑے ہوں۔ لیکن پھر بھی آپ کو غدار سے ہمدردیاں ہیں۔ اور آپ حکومت کی ‘ابو بچاؤ’ مہم کا حصہ بننا چاہتے ہیں، تو پھر خوشیاں منائیں، بلکہ مٹھائیاں بانٹیں۔ کیونکہ غدار جرنیل کو کچھ نہیں ہونے والا ۔یہ ایک علامتی سزا ہے بس۔ جس پہ عمل درآمد ممکن نہیں۔ کیونکہ پاکستان میں ڈی چوک ہے۔ تو ایک جی ایچ کیو بھی ہے۔ جس کے مکینوں کی گروہی عصبیت ان کے بیانات سے جھلک رہی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply