قصہ مختصر: سیر بازار قصہ خوانی کی۔۔۔۔سہیل احمد

قصہ خوانی بازار(پشتو: کيسه خوا، بازار، عربی زبان سے ماخوذ اسم ‘قِصّہ’ کے ساتھ فارسی مصدر ‘خواندن’ سے مشتق ‘خوان’ کے ساتھ ‘ی’ بطور لاحقہ کیفیت ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٧٣٩ء میں “کلیات سراج” میں مستعمل ملتا ہے۔)پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پشاور کا ایک مشہور تاریخی بازار ہے۔ قصہ خوانی بازار تاریخی لحاظ سے ادبی اور سیاسی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔ قصہ خوانی بازار کی پرانی عمارتیں آثار قدیمہ کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہیں جو یہاں پر لوگوں اور ان کی ثقافت سے منسوب کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ قصّہ خوانی بازار، پشاور کا بارونق بازار تھا اور اس کی پُھولوں والی گلی سے جہانگیر پورہ تک طوائفوں کے تقریباً4 ہزارٹھکانے تھے۔ پشاور میں بودھ مت دَور میں ایک کنواں بنایا گیا، جس کی دیوار وں پر مورتیاں بنائی گئی تھیں۔ اپنے ٹھنڈے پانی کی وجہ سے یہ کنواں ’’ٹھنڈ ی کھوئی‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔

پشاور کے سولہ قدیم دروازوں میں سے ایک کابلی دروازہ ہے۔ اسے انگریزوں کے دور میں ایڈورڈ گیٹ بھی کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان دروازوں کی تزئین و آرائش کی جاتی رہی ہے۔ کابلی دروازہ خیبر بازار اور قصہ خوانی کے درمیان واقع ہے۔پشاور کے وسط میں واقع قصہ خوانی بازار تاریخی اعتباد سے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ ماضی میں قصہ گو افراد کی وجہ سے بھی یہ مقبول رہا ہے۔ مغربی اور وسط ایشیا کے تاجر اور فوجی دستے اس بازار میں مختصر قیام کرتے رہے ہیں۔ اس بازار کا نام دراصل یہاں کے روایتی قہوہ خانوں، تکہ کباب، چپلی کباب، اور خشک میوہ جات کی دکانوں کے ساتھ جڑی اس تجارت سے منسوب ہے جہاں پہلے پہل دور دراز سے آئے تاجر یہاں کے مہمان خانوں میں قیام کرتے اور اپنے اپنے ملکوں کے حالات قصہ کی شکل میں بیاں کرتے۔

یہاں کے قصہ گو پورے علاقہ میں مشہور تھے۔ یہاں تاجروں کے علاوہ قافلوں کا بھی پڑاؤ ہوتا اور فوجی مہمات کا آغاز اور پھر اختتام جو کہ تفصیلاً ہر مہم کے احوال کے ساتھ یہیں ہوا کرتا تھا۔ یہاں کے پیشہ ور قصہ گو بہت مشہور تھے اور یہ تاجروں، مسافروں اور فوجیوں سے سنے قصوں کو نہایت خوبی سے بیاں کیا کرتے تھے۔ ایک وقت میں اس بازار کو غیر تحریر شدہ تاریخ کا مرکز کہا جاتا تھا۔ خیبر پختونخوا کے گزئٹیر کے سیاح لوئل تھامس اور پشاور کے برطانوی کمشنر ہربرٹ ایڈورڈز نے اپنی تصانیف میں اس بازار کو وسط ایشیاء کا “پکاڈلی”قرار دیا ہے۔

گو اب قصہ گوئی کا رواج دم توڑ چکا ہے مگر اس بازار کا روایتی ماحول پہلے جیسا ہی ہے۔ یہاں کا تاریخی قصہ خوانی بازار نہ دیکھے اور وہاں کے روایتی قہوے یعنی سبز چائے کا مزا نہ لے تو یہ بالکل ایسا ہے جیسے اس نے کچھ نہیں دیکھا ،یہاں قبائلی تاجر قہوہ پیتے ہوئے مقامی تاجروں سے گھنٹوں لین دین پر بحث کرتے دکھائی دیتے ہیں ’یہ اس شہر کی روایت ہے کہ شام کے وقت لوگ گھروں سے باہر نکل کر قہوہ خانوں میں بیٹھا کرتے تھے اور وہاں گپ شپ اور ملکی حالات پر گفتگو کیا کرتے تھے لیکن اب حالات بڑے حد تک تبدیل ہوگئے ہیں۔ پشاور کا تاریخی قصہ خوانی بازار اب ویرانی کے دہانے پر موجود ہے، جہاں چند دہائیوں قبل تعمیر ہونے والے اور ثقافتی ورثہ سمجھے جانے والے قہوہ خانے اب آہستہ آہستہ آئس کریم پارلر اور جوس پوائنٹ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔اور یہاں اب بھی صوبہ کے دور دراز حصوں سے تاجر اور عام لوگ اس بازار میں سیاحت اور خریداری کے لیے آتے ہیں۔ مختلف قبائلی اپنے روایتی لباس میں یہاں چہل قدمی کرتے ہوئے ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جو کہ اس بازار کے قدیم دور کی یاد دلاتے ہیں۔

یہاں پر بانس، مٹھائیوں، فالودہ اور کانسی کے برتنوں کا بڑے پیمانے پر کاروبار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اردو، پشتو اور فارسی کتب کی چھپائی کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی اداکار وں شاہ رخ خان اور دلیپ کمار کا تعلق پشاور کے قصہ خوانی بازار کے علاقے سے ہی ہے۔قتیل شفائی نے ایک فلم “قصہ خوانی” کے نام سے بنائی تھی۔ حارث خلیق نے ایک خوب صورت نظم ۔۔” قصہ خوانی کی ایک شام”۔۔ لکھی ہے۔ یامین  کی نظم ۔۔” جنم بھومی پشارو کا قصہ خوانی بازار ہے ” ۔۔۔ ایک بہترین  نظم ہے ۔

اس نظم میں شاعر قصہ خوانی کے کسی قہوہ خانے میں کچھ لوگوں کے ساتھ محفل جمائے ہوئے ہے۔، ان لوگوں کا شاعر سے رشتہ اخفا میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ فن کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں، بل کہ یہ آرٹ دشمن لوگ ہیں اور بازاری طرز پر گپ شپ کے عادی ہیں۔ خیال رہے کہ ’’پشوریوں‘‘ کی گپ بازی ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس یاوہ گوئی کے دوانیے میں شاعر چپ سادھے رکھتا ہے۔ اس لیے کہ فن داستان گوئی کے گھرانے سے تعلق رکھنے کے باعث اسے حرمتِ کلام کا احساس ہے۔

یہ بات تو طے ہے کہ نظم کسی شاعر کی ذاتی وارادات کا بیانیہ نہیں ہوتی، لہٰذا یہاں داستاں گو قبیلے سے تعلق رمزیہ ہے یا پھر نظم کے پرسونا کا تعلق واقعی کسی فنی گھرانے سے ہے۔ یہ دونوں امکانات نظم کے متن کا جز ہیں۔ نظم کے دوسرے بند میں واحد متکلم کے ویژن کا برملا اظہار ہے، اسے ادراک ہے کہ الفاظ کی یہ چیخ چنگھاڑ کبھی قرار نہیں پکڑتی، یہاں نظم نے مزید گہرائی میں غوطہ زنی کی ہے اور سطح پر کئی موتی اچھال دیے ہیں ۔

ایک تو یہ کہ فن دشمن محض منڈی کے بولی باز نہیں بل کہ خود فن کار بھی بعض حوالوں سے فن کے قتل کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ تاریخی لحاظ سے اس بازار کی اہمیت 1930ء میں برطانوی دور کے دوران تحریک آزادی ہندوستان کے دوران جلوس پر فائرنگ کا واقع ہے جس میں کئی لوگ جاں بحق ہو گئے۔برطانوی راج کے خلاف احتجاج جب اپنے عروج پر تھا تو 23 اپریل 1930 کو شمال مغربی ہندوستان میں انگریز فوج نے غیرمسلح مظاہرین پر گولی چلا دی جس سے سینکڑوں لوگ جاں بحق ہو گئے۔

تاہم بعدازاں انگریز فوجی دستوں نے اس طرح کی کسی اور خونریزی سے بچنے کے لئے گولی چلانے کے احکامات ماننے سے انکار کردیا۔ پشاور کے قِصہ خوانی بازار یعنی داستانیں سنانے والوں کے بازار میں بھی برطانوی فوج نے گولی چلانے کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ برِصغیر کی آزادی کی تاریخ میں اس واقعے کو فیصلہ کن اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جس کی تحقیقات کی حکم کسی اور نے نہیں بلکہ کنگ جارج ششم نے خود دیا تھا۔ یہ پشاور کی تاریخ کا خون میں لتھڑا ایک درد ناک واقعہ تھا۔پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کے پہلو میں واقع مسجد قاسم خان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی پہلی تعمیر اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں پشاور کے گورنر محبت خان نے کی تھی۔ (محبت خان کے بھائی کا نام قاسم خان تھا)۔

بعد ازاں اس کی تعمیر نو اور توسیع کشمیری نژاد سوداگر حاجی غلام احمد صمدانی کے ہاتھوں اٹھارویں صدی کے آخر میں سرانجام پائی جو آج تک برقرار ہے۔ مسجد قاسم خان میں رمضان اور شوال کے چاند کی رویت کا آغاز احمد شاہ ابدالی کے عہد میں پشاور کے قاضی اور خطیب مسجد قاسم خان عبدالرحیم پوپزئی نے کیا تھا۔ احمد شاہ ابدالی کے بعد پشاور سکھوں کی علمداری میں چلا گیا، بعد ازاں طویل عرصے تک انگریزوں کے زیر قبضہ رہا۔ اس تمام عرصے میں رویت کا حتمی فیصلہ مسجد قاسم خان سے ہی ہوتا رہا۔ عبد الرحیم پوپلزئی کے بعد اُن کے فرزند حافظ محمد آمین پوپزئی اور پھر اُن کے فرزند عبدالقیوم پوپزئی اور پوتے عبدالحکیم پوپزئی مسجد کے خطیب مقرر ہوئے اور یہاں سے رویت کا اعلان کرتے رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عبدالحکیم کے فرزند عبد الرحیم پوپزئی ثانی مسجد قاسم خان کے خطیب کے ساتھ ساتھ صوبہ سرحد میں تحریک خلافت کے سرگرم کارکن اور امیر بھی تھے۔ قصہ خوانی کے مشہور قتل عام کے بعد آپ کو بغاوت پھیلانے کے جرم میں قید کی سزاء سنائی گئی تھی۔ دوسری مرتبہ آپ کو وزیرستان میں انگریزی طیاروں کی بمباری کے خلاف بنوں میں احتجاج کی پاداشت میں طویل عرصے کے لئے قید کر دیا گیا تھا۔ عبد الرحیم پوپزئی ثانی کے بعد مسجد قاسم خان کی خطابت آپ کے چھوٹے بھائی عبدالقیوم پوپزئی کرتےرہے۔ جن کے فرزند مفتی شہاب الدین پوپزئی مسجد قاسم خان کے موجودہ خطیب ہیں۔ پشاور کا قصہ خوانی کی طلسماتی اساطیر، کے علاوہ صوبہ پختو نخوا  اور بالحضوص پشاور کا “ثقافتی استعارہ” ہے۔ اس کا اپنا رومانس ہے۔جو اب دھندلاتا جارہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply