اس قوم کو کیا پڑی ہے؟ ۔۔۔ عبدالرؤف خٹک

میرے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میں جب بھی لکھنے بیٹھتا ہوں، میرے پاس موضوع نہیں ہوتا۔ گھنٹوں سوچتا رہتا ہوں کہ کیا لکھوں؟ دیکھا جائے تو لکھنے کے لئیے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ روز نت نئے تماشے لگتے رہتے ہیں۔ کسی بھی معاملے کو موضوع بنا کر اسے زیر بحث لاسکتے ہیں لیکن میری سوچ ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہے کہ اگر لکھوں تو لکھوں کیا؟ میرا اصل موضوع کیا ہے؟ سیاست میرے بس کی بات نہیں، مزاح پر ابھی گرفت مضبوط نہیں ہوئی، معاشرتی پہلوؤں کو اجاگر کرنا میرے لئیے جان جوکھوں کا کام ہے۔

جب اتنی ساری باتیں دماغ میں گڈمڈ ہوکر گھنٹیاں بجانے لگتی ہیں تو پھر یہ سوچ کر خود کو ہلکا کردیتے ہیں کہ سب کچھ ایک طرف رکھ کر آرام سے بیٹھ کر اپنے لئیے کچھ سوچنا چاہئے۔ ہمیں کیا لینا ان دنیاوی، معاشرتی، اور سیاسی بکھیڑوں سے؟ ہمارے طرف سے کام کریں سب اپنا، کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ آپ کچھ بھی کرلیں، معاشرتی پہلوؤں کو اجاگر کریں یا سیاست کی چکا چوند روشنیوں پر اپنے تبصرے لکھ ڈالیں یا پھر آپ مزاح پر ہاتھ صاف کریں، ہونا کچھ نہیں سب نے پڑھ لینا ہے تبصرے کرلینے ہیں بس۔ نتیجہ کوئی اخذ نہیں کرنا کہ اس میں میرے لئیے کیا پیغام تھا؟ 

مثلاً قوم کو کیا لینا کہ مریم نواز کے ساتھ کیا ہونا ہے اور نواز شریف نے کہاں جانا ہے؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ وہ ریحام سے پوچھے کہ آپ نے کتاب کیوں لکھی؟ اس قوم کو کیا پڑی کہ وہ خان صاحب سے پوچھتی پھرے کہ آپ کوکین استعمال کرتے ہو یا نہیں؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے پوچھے کہ احتساب صرف ایک کا کیوں، کمانڈر مشرف کا کیوں نہیں؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ سے پوچھے صرف اک شخص کے گرد گھیرا کیوں تنگ؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ فوج سے پوچھے کہ احسان مہمان کیوں؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ وہ اعلیٰ ترین جج سے پوچھے کہ جناب صرف مریم اور نواز ہی کیوں؟ وہ ترین، ایان، وہ عاصم، وہ فریال، وہ زرداری۔۔۔ ان سب کا احتساب کیوں نہیں؟ اس قوم کوکیا پڑی ہے کہ عمران خان سے پوچھے آپ کے جلسوں میں آئیں تو صادق و آمین اور اگر نواز شریف کے استقبال کے لئیے قوم نکلے تو وہ گدھے اور بیوقوف؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ سندھ حکومت سے پوچھے آپ نے ہمیں پچھلے تیس پینتیس سالوں میں کیا دیا کہ اب ہم کو بھکاری بنا کر بھی ہم سے بھیک مانگ رہے ہو؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ اگر کوئی شخص بے گناہ مارا گیا تو اسکے لیے سڑک پر آکر احتجاج کرنے کی کیا ضرورت؟ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ خود تو ان لیڈروں کے لیے ستر سال سے قربان ہورہی ہے، لیکن کبھی یہ پوچھنے کی اخلاقی جرات نہ کی کہ اے میرے لیڈروں یہ تم جو ہم سے مشکل وقت میں قربانیاں مانگتے ہو، یہ تمہارے بچے جو باہر ملک کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں یہ قربانیاں ان سے کیوں نہیں مانگتے؟ 

اگر اس قوم میں اتنی اخلاقی جرات ہوتی تو یہ خان صاحب سے ضرور پوچھتی کہ اگر نواز شریف کا ٹبر چور ہے تو آپ نے کون سے پارسا اور اخلاق کے اعلیٰ درجوں پر فائز لوگوں کو چنا ہے وہی لوگ ہیں جو کبھی زرداری اور نواز شریف کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے، آج جب وہ آپ کی جھولی میں آئیں ہیں تو وہ گنگا آشنان ہوگئے؟ 

اس قوم سے کبھی بھی یہ امید مت رکھیے گا  کہ یہ کبھی اپنے حقوق کے لئیے بھی باہر نکلے گی۔ اس قوم نے ایسے ہی رل جانا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ قوم جاگ گئی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے، یہ قوم اب بھی ستو پی کر سو رہی ہے۔ اگر اس قوم میں تھوڑا بھی شعور ہوتا تو یہ اپنے حکمرانوں کو گریبان سے پکڑ کر یہ ضرور پوچھتی کہ آپ خود تو ملک بیچ کر، ہمیں نچوڑ کر ارب کھرب پتی بن گئے ہو کم از کم ہماری آنے والی نسلوں پر تو رحم کرو۔ کم سے کم انہی کو ان کے حال پر چھوڑ دو!

اگر واقعی یہ حکمران اس ملک کے ساتھ سچے ہوتے تو مل جل کر بھی اس ملک اور قوم کی خدمت کی جاسکتی تھی۔ اگر ایک گھر کے چار فرد یا چار بھائی اپنے گھر کو مل جل کر سنوار سکتے ہیں تو بحیثیت قوم ہم سب مل جل کر کیوں نہیں؟ مانتے ہیں کہ اختلافات کی گنجائش ہر جگہ ہوتی ہے، لیکن یہ اختلافات ذاتیات تک ہی کیوں؟ اگر کوئی چور ہے تو اسے سزا دو، لیکن اس کے پورے خاندان کو اس طرح رسوا تو نہ کرو۔ اگر کسی کو یہ اعترض ہے کہ مریم اور نواز شریف کے بیٹے اس استقبال اور احتجاج میں شریک کیوں نہیں تو یہ جواب تو کوئی بھی دے سکتا ہے کہ اگر ان کے بچے شریک نہیں ہیں تو اسلام آباد کے مہینوں احتجاج میں خان صاحب کے بچے کیوں شامل نہیں ہوئے؟ 

بات پھر وہیں آگئی کہ اس قوم نے کب ایک ہونا ہے؟ آخر کب تک یہ قوم سیاستدانوں کے سیاسی بکھیڑوں میں پڑی رہیگی؟ آخر اس قوم کا شعور کب اجاگر ہوگا ؟ آخر یہ کب ایک مخلص اور ایماندار شخص کو جو 62 اور 63 کی شق پر بھی پورا اترتا ہو منتخب کریں گے؟ 

اب بھی وقت ہے اگر سیکھنا ہے تو ان لیڈروں سے ہی سیکھ لو، کس طرح سے خود کو پارسا ثابت کرتے ہیں،، انہیں کوئی غرض نہیں کہ قوم انہیں کن القابات سے نوازتی  ہے؟ آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ اس قوم کو کیا پڑی ہے کہ اپنے حقوق کے لئیے آواز اٹھائے یا اپنے حقوق کی بات کرے؟

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

عبدالروف
گرتے پڑتے میٹرک کی ، اس کے بعد اردو سے شوق پیدا ہوا، پھر اک بلا سے واسطہ پڑا، اور اب تک لڑ رہے ہیں اس بلا سے، اور لکھتے بھی ہیں ،سعاد ت حسن منٹو کی روح اکثر چھیڑ کر چلی جاتی ہے،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply