• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ترکیا: باحجاب خواتین کی داستانِ استقامت(دوم،آخری حصّہ)/ضیاء چترالی

ترکیا: باحجاب خواتین کی داستانِ استقامت(دوم،آخری حصّہ)/ضیاء چترالی

جب حلف اٹھانے کا دن آیا تو مروہ قاوقجی کو پارلیمنٹ ہائوس میں داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ ترک میڈیا کو بھی آگ گئی۔ جب مروہ پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے لگیں تو انہیں روک دیا گیا۔ مگر وہ ہار ماننے والی کب تھی۔ وہ پولیس کی رکاوٹوں کو پھلانگ کر پارلیمنٹ پہنچ گئیں۔ انہیں دیکھ کر سیکولر ارکان بالخصوص دائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی کا بولنت اجاويد، خود وزیر اعظم لمرات عديدہ پھٹ پڑے اور کہا کہ اس عورت کو ہمارے سامنے سے ہٹا دیا جائے۔ اسے دوبارہ یہاں آنے نہ دیا جائے۔ کسی نے کہا کہ اس کے لئے الگ کمرے کا انتظام کیا جائے، ہم اس کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ مروہ کی پارٹی کے ارکان نے ان سے کہا کہ سب سے معمر رکن پارلیمان سبتی اوغلو کے پاس جائو اور اس کے ہاتھ کا بوسہ لے کر پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی اجازت مانگو۔ لیکن مروہ نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے عوام نے منتخب کیا ہے، پارلیمنٹ میں آنا اور حلف اٹھانا دیگر ارکان کی طرح میرا بھی جمہوری و قانونی حق ہے۔ میں اس کے لئے کسی کی کیوں منت سماجت کروں؟ پھر یہ مطالبہ ہوا کہ چلو حجاب اتار دو، یہ سیکولر نظام کے خلاف ہے۔ مروہ نے کہا کہ کچھ بھی ہو جائے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس پر بولنت اجاوید نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ اس خاتون کے ہوتے ہوئے ہائوس کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ یوں ترکی میں ایک بڑا سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ وہ بھی صرف ایک خاتون کے حجاب کی وجہ سے!! جب بات نہیں بنی تو ترک صدر سليمان ڈيميريل نے صدارتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا اور فیصلہ سنایا کہ مروہ کو حجاب کے ساتھ حلف اٹھانے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ چونکہ ملکی تاریخ کا پہلا اور انوکھا معاملہ تھا، اس لئے ملک بھر کے لوگ ٹی وی چینلز پر یہ مناظر دیکھ رہے تھے۔ بالخصوص مروہ کے حلقۂ انتخاب کے لوگ۔ بالآخر مروہ قاوقجی کو پارلیمنٹ سے نکال دیا گیا اور اجلاس کی کارروائی ملتوی ہوگئی۔ اگلے دن مروہ نے پریس کانفرنس کی اور سیکولر عناصر کو خوب سنایا کہ وہ میرا جمہوری و قانونی دینے کو تیار نہیں، یہ شخصی آزادی کے بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایک ایسے ملک میں باحجاب خاتون کو حلف اٹھانے نہیں دیا جا رہا ہے، جس کی تین چوتھائی خواتین حجاب پہنتی ہیں۔ پھر انہوں نے آئندہ پارلیمان کے اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ اپنی حمایت اور ووٹ دینے پر ترک عوام کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد سیکولر انتظامیہ اور میڈیا ہاتھ دھو کر اس نہتی خاتون کے پیچھے پڑ گئے۔ ہر روز ان کے خلاف خبریں، رپورٹس اور کالمز کا انبار لگ جاتا۔ اس عفت مآب خاتون کی کردار کشی روز کا معمول بن گیا۔ ان کے احباب اور خاندان کو بھی خوب رگیدا گیا۔ بالآخر مروہ کی پارٹی بھی ان کی حمایت سے دستبردار ہوگئی۔ دوست احباب نے ہاتھ کھینچ لیا اور رشتہ دار بھی منہ چھپانے لگے۔ یوں مروہ پورے نظام سے ٹکر لینے تن تنہا رہ گئی۔ اب سیکولر عناصر کی جانب سے ان پر حملے شروع ہوگئے۔ پولیس بھی پیچھے پڑ گئی۔ مروہ کو اپنی دو ننھی بیٹیوں کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ پولیس کے خوف سے وہ ٹھکانہ بدلتی رہتیں۔ کال ٹریس ہونے کا خطرہ تھا، اس لئے انہوں نے اپنا موبائل فون بھی بند کر دیا۔ اس دوران مروہ کی جماعت نے ان کے اور حکومت کے مابین ’’صلح‘‘ کرانے کی کوشش کی، لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔ فضیلت پارٹی کے اسلام پسند ارکان کا بھی اصرار تھا کہ حجاب اتار کر پارلیمنٹ آنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی مصلحت کا تقاضا بھی تھا۔ مگر مروہ نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ تاہم ابھی تک ان کی اسمبلی رکنیت ختم نہیں کی گئی تھی۔ اس دوران معاملہ ترک سپریم کورٹ کے پاس چلا گیا۔ سیکولر ججز نے نہ صرف مروہ بلکہ اربکان کی پوری پارٹی پر پابندی لگا دی۔ 22 جون 2001ء کو عدالت نے فیصلہ دیا کہ مروہ سمیت فضیلت پارٹی کے 5 رہنما نااہل ہیں اور پارٹی تحلیل کر دی جائے۔ دلچسپ بات یہ کہ صدر سليمان ڈيميريل مروہ کے والد کا دوست تھا۔ وہ مروہ کی فیملی کو کئی بار صدارتی محل مدعو کر چکا تھا۔ اس کے باوجود صدر سلیمان نے مروہ کی ترک شہریت ختم کر دی۔ مروہ کہتی ہیں کہ 3 برس بعد کیوبا میں فضیلت پارٹی کے رکن ترہان چیلک سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ صدر سلیمان نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم نے مروہ کو حجاب کے ساتھ حلف اٹھانے کی اجازت دی تو ترک فوج حکومت کا تختہ الٹ دے گی۔ کیونکہ فوج سمجھتی ہے کہ یہ صرف ایک خاتون کے حجاب کا معاملہ نہیں، بلکہ سیکولر نظام پر اس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ صدر سلیمان نے مروہ کی شہریت ختم کرنے کے لئے یہ بہانہ بنایا کہ ان کے پاس امریکی نیشنلٹی ہے۔ حالانکہ اُس وقت کئی ارکان پارلیمان دوہری شہریت کے حامل تھے اور اب بھی ہیں۔ شہریت ختم ہونے کے بعد مروہ کے لئے ترکی کی زمین تنگ ہوگئی اور بالآخر انہیں ترکی چھوڑ کر واپس امریکا جانا پڑا۔ (2015 میں سلیمان ڈیمیریل کا انتقال ہوگیا) مروہ قاوقجی کے ساتھ اس انسانیت سوز سلوک پر دنیا بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا۔ دنیا بھر کی اسلامی جماعتوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ مختلف ممالک میں خواتین نے مروہ سے اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرے کئے اور مروہ کو ’’ہمارے سروں کا تاج‘‘ قرار دیا گیا۔ مگر سیکولر عناصر چکنے گھڑے ثابت ہوئے۔ اپنی شہری سے اس بدسلوکی پر امریکا بھی خاموش نہ رہ سکا۔ امریکا نے ترکی سے باقاعدہ شکایت کی اور اس وقت کے امریکی صدر، بل کلنٹن نے مروہ قاوقجی کو ملاقات کے لئے وہائٹ ہائوس بلایا۔ جبکہ امریکی وزیر خارجہ کولن پائول نے بھی ان سے ملاقات کی۔ علاوہ ازیں کینیڈین وزیر اعظم سمیت کئی عالمی رہنمائوں نے مروہ سے ملاقات کرکے یکجہتی و ہمدردی کا اظہار کیا اور برطانوی ارکان پارلیمان کی جانب سے انہیں خط لکھا گیا۔ امریکا پہنچ کر مروہ نے مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور دنیا کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ہاورڈ میں داخلہ لیا۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرکے وہ جامعہ جارج واشنگٹن میں پروفیسر لگ گئیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے قلمی جہاد بھی شروع کیا اور ترک اخبارات میں کالم لکھ کر رائے عامہ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اردگان نے جب خاموش انقلاب برپا کیا۔ حجاب پر پابندی نرم ہوگئی تو مروہ واپس ترکی آگئیں۔ ان کی شہریت بھی بحال کر دی گئی۔ بلکہ اردگان نے انہیں سفیر بنا کر ملائیشیا بھیج دیا۔ مروہ کی بیٹی فاطمہ اردگان کی ذاتی مترجم جبکہ باحجاب روضہ قاوقجی اب مروہ کے حلقے سے ترک پارلیمان کی رکن ہیں۔ اب ترکیا میں حجاب پر پابندی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے حوالے سے گزشتہ سال کے وسط سے ٹھوس و پائیدار اقدامات پر غور شروع ہوا ہے۔ شروع میں خیال تھا کہ اس کیلئے ایک صدارتی حکم نامہ (آرڈی نینس) کافی ہوگا، لیکن آئینی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر مستقبل میں انتہا پسند انتخاب جیت گئے تو پوری بساط لپیٹی جا سکتی ہے۔ چنانچہ طے پایا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے حجاب کو تحفظ فراہم کر دیا جائے۔ ترکیہ میں آئینی ترمیم کیلئے مسودہ سب سے پہلے پارلیمان کی مجلس قائمہ برائے دستور میں پیش کیا جاتا ہے۔ مجلس قائمہ میں پیشی کیلئے ترمیم کی حمایت میں پارلیمان کے نصف سے زیادہ ارکان کے دستخط ضروری ہیں۔ ترک پارلیمان 600 ارکان پر مشتمل ہے۔ مجلس قائمہ سے منظوری کے بعد پارلیمان میں رائے شماری کے دوران ترمیم کے حق میں کم از کم 3/5یا 360 ووٹ نہ آنے پر مسودہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر 360 سے زیادہ لیکن 400 سے کم ارکان نے ترمیم کے حق میں ہاتھ اٹھائے تو معاملہ صدر کے سامنے پیش ہوگا۔ ایوانِ صدر ترمیم پر مزید مباحثے اور دوبارہ رائے شماری کیلئے اسے پارلیمان کو واپس بھیج سکتا ہے اور صدر کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ ترمیم پر عوام کی رائے معلوم کرنے کیلئے اسے ریفرنڈم کیلئے پیش کر دے۔ اگر ریفرنڈم میں نصف سے زیادہ ووٹروں نے ترمیم کی توثیق کردی تو یہ آئین کا حصہ بن جائے گی۔ دوسری طرف اگر رائے شماری کے دوران 400 سے زیادہ ارکانِ پارلیمان نے ترمیم کی حمایت کردی تو پھر ریفرنڈم کی ضرورت نہیں۔ پارلیمان کے اسپیکر مصطفی سینتوپ Mustafa Şentop کے مطابق اسکارف پر پابندی ختم کرنے کیلئے مجوزہ آئینی ترمیم پرتمام جماعتیں متفق ہیں اور 366 ارکان نے ترمیمی بل پر دستخط کر دیئے ہیں۔ ترک پارلیمان کی مجلسِ قائمہ برائے آئینی امور نے دستور میں ترمیم کی توثیق کر دی ہے، جس کے تحت حجاب پر پابندی غیر قانونی ہوگی۔ اسپیکر کا کہنا ہے کہ 366 ارکان کے دستخطوں سے یہ ترمیمی بل پیش کیا گیا ہے۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ کسی خاتون کو کسی بھی صورت، تعلیم، کام، ووٹ ڈالنے اور منتخب ہونے کے حق، سیاسی سرگرمیوں، سول سروس یا مذہبی وجوہات کی بنا پر حجاب پہننے یا لباس کے حصے کے طور پر سرکاری اور نجی اداروں کی جائیداد اور خدمات کو استعمال کرنے سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ حجاب کی مذمت اور اس حوالے سے الزام، طنز، استہزا اور کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک غیر قانونی ہوگا۔ اداروں کے یونیفارم میں بھی ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کسی خاتون کو مذہبی وجوہات کی بنا پر حجاب اور اپنی پسند کا لباس پہننے سے نہ روکا جائے۔ اب یہ ترمیم بحث اور رائے شماری کیلئے پارلیمان میں پیش کی جائے گی۔ سیکولر خیالات کی حامل ریپیلکن پیپلز پارٹی (CHP)ماضی میں حجاب کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے۔ تاہم آئینی کمیٹی کے اجلاس میں اس نے ترمیم کی مخالفت نہیں کی۔ اب پارلیمان میں اسلام پسندوں کو اکثریت کے ساتھ 50 باحجاب خواتین بھی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ اس لئے یہ ترمیم بہ آسانی منظور ہونے کی امید ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

Reply, Reply A

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply