سرپرست مدیرِ مکالمہ،نامور ادیب ڈاکٹر انور سجاد وفات پا گئے

نامور ادیب  ،افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، مصور،ڈاکٹر انور سجاد  آج (06جون2019) لاہور میں وفات پا گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔  آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔آپ کا کام ایک لمبے عرصے تک اردو کے قارئین اور طالب علموں کی مدد کرتا رہے گا۔

لاہور میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر انور سجاد کا اصل نام سید محمد انور سجاد علی بخاری ہے۔انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا۔ پھر ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ کا امتحان لندن سے پاس کیا۔

انور سجاد کی شخصیت پہلو دار ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ نظریاتی وابستگی انہیں سیاست تک لے آئی۔ اسٹیج، ٹیلی وژن کی قوتِ اظہار سے واقف ہیں چنانچہ ڈراما نویس بھی ہیں اور کامیاب اداکار بھی۔ ایک طاقتور برش پر انگلیاں جمانے کا فن جانتے ہیں اور جدید افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ وہ اپنی شخصیت اور روحِ عصر کے اظہار کے لیے تمام شعبوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ تمام پہلو ان کی افسانہ نگاری میں کسی نہ کسی طرح ظاہر ہوئے ہیں۔ وہ اشیاء کو باطنی ویژن سے دیکھتے ہیں جس کی مثالیں ان کے افسانوں میں ملتی ہیں۔اپنے افسانوں میں انہوں نے حقیقت کو فینٹسی کے روپ میں بیان کرنے کے لیے نئی نئی تکنیک استعمال کی ہیں۔ استعارے اور علامتوں کی بھرمار سے انہوں نے ان سائیڈ آوٹ کی طرف سفر کیا اور مشاہدے باطن کی دھندلی پر چھائیوں سے عصری حقیقت بیان کی ہے۔ سیاسی اور معاشی ناہمواری ان کے موضوع خاص ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد کا پہلا ناولٹ رگ سنگ 1955ء میں شائع ہوا۔ دیگر کتابوں میں استعارے 1970ء، آج، پہلی کہانیاں ، چوراہا، خوشیوں کا باغ اور دیگر شامل ہیں۔

تصانیف
رگ سنگ
استعارے
آج
پہلی کہانیاں
چوراہا
زرد کونپل
خوشیوں کا باغ
نگار خانہ
صبا اور سمندر
جنم روپ
نیلی نوٹ بُک
رسی کی زنجیر
مجموعہ ڈاکٹر انور سجاد
اعزازات
ڈاکٹر انور سجاد کو 1989ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
ناقدین کی رائے
ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی، ڈاکٹر انور سجاد کے فن کے بارے میں کہتے ہیں :

” انور سجاد کے افسانے سماجی تاریخ نہیں بنتے بلکہ اس سے عظیم تر حقیقت بنتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے یہاں انسان یعنی کردار، علامت بن جاتے ہیں۔ یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ انور سجاد کے کردار بے نام ہوتے ہیں اور وہ انہیں ایسی صفات کے ذریعے مشخص کرتے ہیں جو انہیں کسی طبقے یا قوم سے زیادہ جسمانی یا ذہنی کیفیات کے ذریعے تقریباً دیو مالائی فضا سے متعلق کردیتے اور خطِ مستقیم کی بجائے دائرے کا تاثر پیدا کرتے ہیں۔ممتاز شاعر و افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر انور سجاد کی تکنیک اور اسلوب کے بارے میں کہتے ہیں :

” انور سجاد کے افسانوں کے اسلوب پر غور کرتے ہوئے مجھے غزل بہت یاد آئی۔ شعور کی رو میں ایک غیر شعوری باظنی ربط ضرور ہوتا ہے۔ یہی ربط ایک اچھی غزل میں بھی موجود ہوتا ہے۔ یوں اردو کی یہ صنف جدید ذہن کے قریب پہنچ جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر صاحب  کی وفات سے ادبی دنیا میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے، مکالمہ ٹیم  ان کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔اور دعا گو ہے ہے کہ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائیں اور ان کے درجات بلد فرمائیں ۔آمین !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply