ہمارے نظامِ شمسی کے آٹھ سیارے۔۔۔۔زاہد آرائیں /قسط 4

زمین۔۔ Earth ۔۔پہلا حصّہ۔۔
زمین نظامِ شمسی میں سورج کا تیسرا نزدیک ترین سیارہ ہے۔ زمین نظام شمسی کا وہ واحد سیارہ ہے جہاں پرزندگی موجود  ہے۔ پانی زمین کی 3­/­2 سطح کو ڈھکے ہوئے ہے۔ زمین کی بیرونی سطح پہاڑوں،ریت اور مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ پہاڑ زمین کی سطح کا توازن برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اگر زمین کو خلا سے دیکھا جائے تو ہمیں سفید رنگ کے بڑے بڑے نشان نظر آئیں گے۔ یہ پانی سے بھرے بادل ہیں جو زمین کی فضا میں ہروقت موجود رہتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے ان بادلوں کی تعداد میں کمی آئی ہے جس کا اثر زمین کی فضا کو پڑا ہے۔ زمین کا صرف ایک چاندہے۔ زمین کا شمالی نصف کرہ زیادہ آباد ہے جبکہ جنوبی نصف کرہ میں سمندروں کی تعداد زیادہ اور خشکی کم ہونے کی وجہ سے کم آبادی ہے، اِس کے علاوہ اور کئی وجوہات ہیں (جیسے پچھلے دور میں اُن علاقوں کا کم جاننا وغیرہ)۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی پر چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات رہتی ہے۔ عام دن اور رات کا دورانیہ چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔

زمین کی انسانی آبادی چھ ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔

تاریخ وار ترتیب۔۔
آغاز میں زمین پگھلی ہوئی حالت میں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ زمین کی فضا میں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا اور اس کی سطح ٹھنڈی ہو کر ایک قرش(crust) کی شکل اختیار کر گئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی چاند کی تشکیل ہوئی۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مریخ کی جسامت کا ایک جسم تھیا (Theia)، جس کی کمیت زمین کا دسواں حصہ تھی، زمین سے ٹکرایا اور اس تصادم کے نتیجے میں چاند کا وجود عمل میں آیا۔ اس جسم کا کچھ حصہ زمین کے ساتھ مدغم ہو گیا، کچھ حصہ الگ ہو کر خلا میں دور نکل گیا، اور کچھ الگ ہونے والا حصہ زمین کی ثقلی گرفت میں آگیا جس سے چاند کی تشکیل ہوئی۔ پگھلے ہوئے مادے سے گیسی اخراج اور آتش فشانی کے عمل سے زمین پر ابتدائی کرہ ہوا ظہور پذیر ہوا۔ آبی بخارات نے ٹھنڈا ہو کر مائع شکل اختیار کی اور اس طرح سمندروں کی تشکیل ہوئی۔ مزید پانی دمدار سیاروں کے ٹکرانے سے زمین پر پہنچا۔ اونچے درجہ حرارت پر ہونے والے کیمیائی عوامل سے ایک (self replicating) سالمہ (molecule) تقریباًً 4 ارب سال قبل وجود میں آیا، اور اس کے تقریباًً 50 کروڑ سال کے بعد زمین پر موجود تمام حیات کا جد امجد پیدا ہوا۔

ضیائی تالیف کے ارتقاء کے بعد زمین پر موجود حیات سورج کی توانائی کو براہ راست استعمال کرنے کے قابل ہو گئی۔ ضیائی تالیف سے پیدا ہونے والی آکسیجن فضاء میں جمع ہونا شروع ہو گئی اور کرہ ہوا کے بالائی حصے میں یہی آکسیجن اوزون (ozone) میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔ چھوٹے خلیوں کے بڑے خلیوں میں ادغام سے پیچیدہ خلیوں کی تشکیل ہوئی جنھیں (eukaryotes) کہا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یک خلوی جانداروں کی بستیاں بڑی سے بڑی ہوتی گئیں، ان بستیوں میں خلیوں کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا چلا گیا اور خلیے مختلف کاموں کے لیے مخصوص ہوتے چلے گئے۔ اس طرح کثیر خلوی جانداروں کا ارتقاء ہوا۔ زمین کی بالائی فضا میں پیدا ہونے والی اوزون (ozone) نے آہستہ آہستہ زمین کے گرد ایک حفاظتی حصار قائم کر لیا اور سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں (ultra violet rays) کو زمین تک پہنچنے سے روک کر پوری زمین کو زندگی کے لئیے محفوظ بنا دیا۔ اس کے
بعد زندگی زمین پر پوری طرح پھیل گئی۔

زمین کی عمر۔۔
اگرچہ کائنات کی عمر کے بارے میں سائنسدان متفق نہیں ہیں ۔ لیکن زمین کی عمر کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ آج سے پانچ ارب سال پہلے گیس اور غبار کا ایک وسیع و عریض بادل کشش ثقل کے انہدام کے باعث ٹکروں میں تقسیم ہو گیا سورج جو مرکز میں واقع تھا سب سے زیادہ گیس اس نے اپنے پاس رکھی ۔ باقی ماندہ گیس سے دوسرے کئی گیس کے گولے بن گئے ۔ گیس اور غبار کا یہ بادل ٹھندا تھا اور اس سے بننے والے گولے بھی ٹھندے تھے ۔ سورج ستارہ بن گیا اور دوسرے گولے سیارے ۔ زمین انہی میں سے ایک گولہ ہے ۔ سورج میں سارے نظام شمسی کا 99٪ فیصد مادہ مجتمع ہے ۔ مادے کی کثرت اور گنجانی کی وجہ سے اس میں حرارت اور روشنی ہے ۔ باقی ماندہ ایک فی صدی سے تمام سیارے جو نظام شمسی کا حصہ ہے بنے ۔ نظام شمسی کے یہ گولے جوں جوں سکڑتے گئے ان میں حرارت پیدا ہونے لگی ۔ سورج میں زیادہ مادہ ہونے کی وجہ سے اس شدید سمٹاؤ کی وجہ سے ایٹمی عمل اور رد عمل شروع ہوا اور ایٹمی دھماکے شروع ہوئے ، جس سے شدید ایٹمی دھماکے ہوئے ، جن سے شدید حرارت پیدا ہوئی ۔ زمین میں بھی ان ہی اصولوں کے تحت حرارت پیدا ہوئی ۔ حرارت سے مادہ کا جو حصہ بخارات بن کر اڑا فضا کے بالائی حصوں کی وجہ سے بارش بن کر برسا ۔ ہزاروں سال یہ بارش برستی رہی ۔ ابتدا میں تو بارش کی بوندیں زمین تک پہنچتی بھی نہیں تھیں ۔ بلکہ یہ راستہ میں دوبارہ بخارات بن کر اڑ جاتی تھیں ۔ مگر لاکھوں کروڑں سال کے عمل سے زمین ٹھنڈی ہوگئی ۔ اس کی چٹانیں بھی صاف ہوئیں خشکی بھی بنی اور سمندر وجود میں آئے۔

ساخت اور ڈھانچہ۔۔
زمین قطبین پر شلجم کی طرح تقریباً چپٹی گول شکل میں ہے۔ زمین کے گھومنے سے اس میں مرکز گریز اثرات شامل ہوجاتے ہیں۔ جس کے باعث یہ خط استوا کے قریب تھوڑی ابھری ہوئی ہے اور اس کے قطبین یا پولز قدرے چپٹے ہیں۔ ان مرکز گریز اثرات ہی کی وجہ سے زمین کے اندرونی مرکز سے سطح کا فاصلہ خط استوا کے مقابلے میں قطبین پر 33 فیصد کم ہے۔ یعنی مرکز سے جتنا فاصلہ خط استوا کے مقامات پر زمین کی سطح تک ہے مرکز سے قطبین کی سطح کا فاصلہ
اس سے لگ بھگ ایک تہائی کم ہے۔

کرہ ارض۔۔
کرہ ارض (Globe) زمین کا ایک تین جہتی پیمانہ ماڈل ہے جبکہ گلوب یا  کرہ ارض کو زمین کے ایک متبادل کے نام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ “گلوب” لاطینی لفظ گلوبس (globus) سے ہے جس کے معنی کروی جسم کے ہیں۔ ابتدائی ارضی کرہ ارض جو قدیم دنیا کی مکمل عکاسی کرتا تھا اسلامی دنیا میں تیار کیا گیا۔ ڈیوڈ ووڈورڈ کے مطابق، کرہ ارضی کی ایک مثال فارسی ماہر فلکیات جمال الدین کی طرف سے بیجنگ کو 1267ء میں  متعارف کرائی گئی۔

زمینی کرۂ  ہوائی ۔۔
زمینی کرۂ ہوائی ، زمین کے گرد گیسوں کا ایک غلاف ہے۔ زمین کی کششِ ثقل ان گیسوں کو اپنے گرد ایک کرہ کی مانند سموئے رکھے ہے۔ عام فہم الفاظ میں اِسے عموماً صرف فضاء بھی کہا جاتا ہے؛ چنانچہ زمین کی طرح دوسرے اجرامِ فلکی کے بھی کرۂ ہوا اور فضائیں ہیں۔ یہ گیسوں کا غلاف، سورج سے پیدا ہونے والی خطرناک شمسی اوربالائے بنفشی شعاعوں سے زمین کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ نہ صرف زمین کو باہر کی مضر شعاعوں سے بچاتا ہے بلکہ یہ زمین پر گرمی کو
بھی خلاءمیں خارج ہونے سے روک لیتا ہے۔
فضائی گیسیں دوسرے رنگوں کے نسبت نیلا رنگ زیادہ مقدار میں منتشر کرتی ہیں، جس کی وجہ سے خلاء سے دیکھے جانے پر زمین کے گرد ایک نیلا ہالہ نظر آتا ہے۔
فضاء کا خُشک حصٌہ ٪78.09 نائٹروجن، ٪20.95آکسیجن، ٪0.93 آرگان، ٪0.039 کاربن ڈائی آکسائیڈ اور قلیل مقدار میں دوسری گیسوں پر مبنی ہے۔ فضاء کا نم حصٌہ تقریباً ٪1 آبی بخاراتپر مُشتمل ہے۔ گیسوں کے اِس میل یا آمیزے کو اکثر ہوا کہا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

زمین کے کرۂ ہوا کی پانچ پرتیں ہوتی ہیں۔ عموماً، اونچائی اور بلندی کے ساتھ ہوائی دباؤ اور کثافتومیں  کمی آتی ہے، لیکن جب فضاء کو مختلف پرتوں میں بانٹنا ہو تو درجہِ حرارت ایک مستقل مقدار سمجھی جاتی ہے۔ درجہِ حرارت اونچائی کے ساتھ نسبتاً دائمی انداز میں کم ہوتا ہے، چنانچہ فضائی پرتوں کو بانٹنے کے لیے درجہِ حرارت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply