پردیسی پاکستانیوں کا مسئلہ/بشارت حمید

کچھ عرصہ پہلے ایک بہت ہی عزیز دوست جو خلیجی ملک میں جاب کرتے ہیں ان سے گپ شپ کے دوران بات قرض کے لین دین پر آئی تو انہوں نے اپنا تجربہ شئر کیا کہ بہت سے لوگوں نے ان سے کسی ضرورت کے تحت قرض لیا لیکن اس کی واپسی کا کوئی اتہ پتہ نہیں کہ کب واپس ملے گا ان کے تجربے میں بہت کم لوگ ایسے تھے جنہوں نے رقم واپس بھی کردی جبکہ اکثریت نے واپسی کے بارے بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔
ہمارے معاشرے میں کوئی دوست بیرون ملک چلا جائے تو پیچھے اس کی جان پہچان والے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں شاید ریال اور ڈالر درختوں پر لگے ہوتے ہیں اور جو وہاں چلا جاتا ہے اس کا کام تو بس توڑ کر پاکستان بھیجنا ہی ہوتا ہے۔ وہاں کی سختیوں اور حالات کا یہاں رہنے والے اندازہ کر ہی نہیں سکتے کہ کیسے جان جوکھوں میں ڈال کر یہ پردیسی کچھ بچت کرتے ہیں کہ پاکستان بھیج سکیں لیکن اسی دوران کوئی عزیز رشتہ دار یا دوست ان سے ادھار مانگ لیتا ہے اور وہ مروت میں انکار بھی نہیں کر سکتے لیکن اگر رقم دے دیں تو پھر واپس ملنے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔
خاص طور پر وہ لوگ جو بیچارے لیبر کیٹیگری میں جاتے ہیں ان کے ساتھ اکثر کفیل حضرات بہت برا سلوک روا رکھتے ہیں یہاں تک کہ بیماری کی دوا لینے کی چھٹی بھی نہیں ملتی۔ پھر اپنے وطن، گھر، والدین اور بیوی بچوں سے دوری کا شدید احساس انکے دکھوں میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ تیس تیس منزلہ عمارتوں پر شدید گرمی میں کام کرتے ہوئے انکی حالت کا اندازہ یہاں پیچھے بیٹھنے والے نہیں کر سکتے۔ الٹا انکے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کہ جو پیسے گھر والوں کو بھیجتے ہیں اس سے زیادہ خرچ کر لیا جاتا ہے۔ دو سال بعد واپسی پر وہ وہیں صفر پر ہی کھڑے ہوتے ہیں۔
اسی طرح جو دوست ایگزیکٹیو پوسٹ پر بیرون ملک جاتے ہیں انکا پلان یہی ہوتا ہے کہ پانچ دس سال باہر لگا لیں تاکہ رہنے کیلئے اچھا گھر بن جائے بچوں کی تعلیم کا بندوبست ہو جائے کچھ سرمایہ جمع ہو جائے تو پردیس کو خیرباد کہہ کر واپس اپنے لوگوں میں زندگی بسر کی جائے لیکن انکے سارے پروگرام قرض مانگنے والوں کی وجہ سے کم ہی پایہ تکمیل تک پہنچ پاتے ہیں۔ یہ کم لوگ ہی سوچتے ہیں کہ انکی اپنی بھی ضروریات ہیں اپنے بھی کچھ پلان ہیں جس کیلئے وہ جلاوطنی کاٹ رہے ہیں۔ اگر کسی کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے قرض دے ہی دیں تو بروقت اسکی واپسی یقینی بنائی جائے نہ کہ اسے لوٹ کا مال سمجھ کر ہڑپ کر لیا جائے۔
اسی طرح کوئی دوست اگر اپنی وراثتی جائیداد یا کوئی اور مہنگی چیز فروخت کرتا ہے اور اس کے جاننے والوں کے علم میں آ جائے کہ اب اس کے پاس پیسے ہیں تو مختلف حیلے بہانوں سے لوگ اس سے مانگنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔۔۔ ارے بھائی اگر اس نے کوئی جائیداد بیچ ہی لی ہے تو اپنی کسی ضرورت کے تحت ہی بیچی ہو گی۔۔۔ اب وہ اپنا کام پورا کرے یا بطور ناقابل واپسی قرض بانٹ کر خود اسی پوزیشن میں رہے۔۔۔
ہمیں اپنی چادر کے مطابق ہی پاوں پھیلانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اگر کسی اہم مجبوری کے تحت قرض لینا پڑ ہی جائے تو دینے والا چاہے صاحب حیثیت ہو یا کم پیسے والا اس کا احسان مانتے ہوئے وعدے پر واپسی کو یقینی بنایا جائے نہ کہ اسکی رقم ہڑپ کرکے تعلقات کی خرابی کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی جوابدہی کرنی پڑ جائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply