ایک شام۔۔عاصم کلیار

اس شہرِ دل فگاراں کی کیا تہذیب تھی کہ جب تک علی ہجویری کو بھی شہر میں داخلے کا اذن نہ ملا وہ راوی کے دوسرے کنارے بیٹھے رہے خیر وہ تو ولی تھے جو سب رمزوں کو سمجھتے تھے مگر شہر لاہور کے کسبی بھی رواداری اور رکھ رکھاؤ سے واقف تھے سر میلہ رام کی شہرت دربار سرکار تک تھی ان کے فرزند سرن داس نے باپ کے نام کو مزید روشن کیا جب ان کے فرزند دل بند لالہ روپ چند کی شادی ہو چکی تو کچھ دنوں بعد کسبیوں نے فقیر خانے کی ڈیوڑھی پر دستک دیتے ہوۓ کہا کہ فقیر نجم الدین آج تم سے تمھارے دوست راۓ بہادر سرن داس کی شکایت کرنے آۓ ہیں اور آپ جانتے ہیں یہ ہمارا حق بھی ہے تمھارے دوست سرن داس نے بیٹے کی شادی کی شہر کیا ملک بھر کے روساء و فقرا کو یاد رکھا اور اپنے شہر کے کنجروں کو بھول گیا فقیر جی نے مسکراتے ہوۓ دو سطروں پر مشتمل دستی رقعہ سرن داس کے نام لکھ کر روانہ کیا کہ روساء کا یہ شیوہ نہیں کہ خوشی کے دن غریبان شہر کو یاد نہ رکھیں روایت کرنے والے نے بیان کیا کہ رقعہ ملنے کے بعد جو مال و زر ان کنجروں کو ملا اس کا شمار کچھ آسان نہیں یہ اس شہر کا طرہ امتیاز تھا کہ عوام و خواص میں ایک ربط اور بھائی چارہ تھا۔

وہ جو نو رتن میں سے ایک تھا اور جس کی بات ظل سبحانی شہنشاہ ہند جلال الدین محمد اکبر بھی سنتا تھا اسی ٹوڈر مل کی حویلی فقیر خانے والوں کا مسکن ٹھہری ٹوڈر مل تاریخ کا حصہ بنا جب کہ فقیر خانے والوں کی کئی  نسلوں نے تاریخ کے اوراق پر اپنا نام حروف تابناک میں نہ صرف رقم کروایا بلکہ تاریخ کو محفوظ کرنے کے ہنر سے بھی واقف تھے اب حویلی فقیر خانہ میں زینہ بہ زینہ تاریخ مقید ہے مولا علی مشکل کشا کا تعویذ ابن عربی کے ہاتھوں ارطغول کو ملنے والی برد عمانی اور سرکار مدینہ کے استعمال رہنے والے نودرات کے رکھوالے اب فقیر سیف الدین ہیں جن کو تاریخ کا قصہ گو سمجھیے اور شہر لاہور کا تذکرہ نویس جانیے کل کی شام اپنے کرم فرما میاں شہباز کے ساتھ ان کے دوست ٹونی جی کی وساطت سے فقیر سیف الدین کے ساتھ بسر ہوئی تو اسی حویلی میں جو ٹوڈر مل کا مسکن تھا اور جہاں خانوادہ فقیر خانہ جو دربار و سرکار میں بلند مرتبہ رکھنے کے علاوہ صدیوں سے تاریخ اور تہذیب کو یکجا کرنے کا ہنر بھی رکھتے تھے اور درد دل بھی کہ گلاب خانہ کے کرتے دھرتا بھی تھے اور رتن چند کے باغ کے ساتھ انگوری باغ میں دارلشفا کے بانی بھی تھے یہی دارلشفا اب میو ہسپتال ہے جس کی بنیاد فقیر خانہ والوں نے رکھی تھی ہم اپنی تاریخ اور تہذیب سے غافل و بے خبر سو حویلی کے ہال کمرے میں فقیر سیف الدین سے تاریخ،تہذیب اور کم و بیش بیس ہزار نوادرات کو گواہ بنا کر میں نے عرض کیا کہ سب کچھ فرض کفایہ سمجھتے ہوۓ لکھ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کل کی شام بھی آئی تو کہاں کہ حویلی فقیر خانہ سے نکلے تو عشا کی اذان ہو چکی تھی اور سامنے وہ گلی تھی جس کے بالا خانوں کی دھوم ہند تا سند تھی مگر اب کوئی ویرانی سی ویرانی تھی کہ مال و زر کی ہوس میں ہم اپنی تہذیب اور تاریخ کو بھول چکے ہیں۔
تاریخ گم گشتہ کے حوالے سے دل گرفتگی و ملال اپنی جگہ مگر سیکھنے کو بھی تو بہت کچھ ملا۔
کل کی یادگار شام کے حوالے سے
میاں شہباز علی
ٹونی جی
اور فقیر سید سیف الدین کا شکریہ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply