رشتوں میں تناؤ کی وجوہات/جمیل آصف

معاشرتی رشتوں میں تناؤ بالخصوص ازدواجی بگاڑ میں جو بالآخر علیحدگی پر جا کر ختم ہو ۔فریقین کو بلاتخصیص ایک جذباتی ذہنی صدمے سے دوچار رکھتا ہے ۔
جس میں اس رشتے سے اعتبار کا اٹھ جانا بھی شامل ہے ۔
لڑکا اور لڑکی ایک طویل عرصے تک اس  کے منفی اثرات  سے نکل نہیں پاتے جس کی بنا پر ان کی زندگی جمود کا شکار  ہو کر ایک ہی نکتے پر رک جاتی ہے ۔

اگر کوئی ماضی کو بھلا کر پچھلے رشتے کی کمی، کوتاہی اور اس سے سبق سیکھ کر اگلی زندگی کی  نئی شروعات کسی اچھے ساتھی کے ساتھ کرنے  کا سوچ کر کوشش بھی کرے تو معاشرے کے اس کی سابقہ  ناکام زندگی کے بارے چبھتے سوالات ہی کسی معیاری تعلق سے منسلک ہونے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں ۔

یہ صورت حال اس وقت زیادہ گھمبیر ہو جاتی ہے ۔جب فریقین اپنے سابقہ شریک حیات کی خامیوں، ان کے مزاج کے ساتھ ان کے کردار پر بات کرتے نظر آتے ہیں ۔

ان تمام باتوں میں سچائی بھی ہو سکتی ہے اور اسے غصے میں کردار کشی کرنے کے لیے روز اوّل  پروپیگنڈہ ٹولز کے ذریعے معاشرے میں بہتان تراشی سے بھی تصور کیا جا سکتا ہے ۔

جب میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات تک کو کھلے عام تکلیف دہ انداز میں بیان کیا جائے حالانکہ میاں بیوی کے رشتے کو  قرآن مجید نے لباس سے تشبیہ دی ہو ۔ بلکہ اسے فعل  قبیح سے تشبیہ دینا  زیادہ مناسب رہے گا   ۔

رشتہ ختم ہونے پر اچھی فہم و فراست کے حامل خاندان یا متاثرہ فریق کبھی بھی پچھلی زندگی یا سابقہ شریک حیات کے بارے بات کرتا پایا نہیں جاتا تاکہ نیا شریک سفر چاہے وہ لڑکی ہو یا لڑکا اس بارے منفی رائے قائم کرنا تو درکنار اس بارے بات کرتا دکھائی نہیں دیتا ۔،
اس کی وجہ معاشرے کی وہ نفسیات ہے ان لوگوں کے بارے جو  پچھلی زندگی کے متعلق   شکوہ شکایت، َکردار کشی کرنے والے احباب سے کوئی  بھی شریف، سلجھی طبعیت کا حامل فرد یا خاندان دوبارہ رشتہ استوار کرنے سے گریز رکھنے کی رائے کی بنا پر بنی ہوتی  ہے اس مفروضے کی بنیاد پر کہ کل کو اختلاف ہونے پر جو سماجی رشتوں میں ایک لازمی امر ہے ہمارے بارے  میں بھی کردار کشی جب سوشل میڈیا کی صورت ہر علاقے، فرد تک رسائی رکھتا ہو ہماری، خاندان کی یا ہمارے اس بچے /بچی کی جگ ہنسائی کا باعث بنے گی ۔

عزت چاہے عورت کی ہو یا مرد کی کردار دونوں کا ہی عزت و تکریم کا حامل ہے ۔

ہمارے ہاں ایسے معاملات پر ناکام شادی کے بعد  گھر کی چار دیواری  میں موجود بیڈ روم سے  منسلک معمولات سے مالی معاملات تک کو اٹھا کر سوشل میڈیا پر بیان کردیا جاتا ہے  اور ہمدردی سمیٹ کر سوشل میڈیا پر موجود ایک سوچنے سمجھنے سے عاری ہجوم سے ایسے شخص کو جسے ہدف تنقید بنایا جاتا ہے بلا سوچے سمجھے اس کا موقف سنے، اس سے جان پہچان ہوئے بنا کٹہرے میں لا کھڑا  کردیتے ہیں ۔
پھر ایک لعن طعن کا سلسلہ اور اس الزام دہندہ  فرد کی دلجوئی شروع ہو جاتی ہے ۔حالانکہ قرآن مجید کا ایسے معاملات میں واضح طور پر راہنما اصول ہے جو سورہ حجرات میں بیان کیا گیا ہے ۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(6)
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے ۔”

نظر انداز کر بیٹھتے ہیں ۔سوشل میڈیا مثبت، منفی اثرات کے ساتھ زندگیوں میں ایک وسیع حلقہ عوام الناس تک رسائی رکھتا ہے ۔ایسے تمام امور پر آگاہی کی ضرورت ہے جس پر کسی بھی شخص، قوم، ادارے، ملک یا خطے کے بارے افواہوں سے کسی شخصیت کا موقف سنے بغیر اس کے کردار  کو مسخ کرنے کی حوصلہ شکنی کی جا سکے ۔
ایسے تمام احباب کے  لئے محبوب کائنات کا یہ قول ہی کافی ہے جو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔

جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی برہنگی چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی برہنگی چھپائے گا ۔
اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا پردہ فاش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا پردہ فاش کرے گا حتی کہ اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

(سنن ابن ماجہ، ۲۵۴۶)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply