انکشاف اور شروعات ۔۔مہر عبدالرحمان طارق/آخری حصہ

زین جب رشیا پہنچا تو اس کو ائیرپورٹ سے شانزلی فرائڈ نے ریسو کیا۔ شانزلی فرائڈ ایم آئی سکس کی اہم رکن تھی جس کو خصوصی طور پر ڈارک نائٹ ویب کے ہیڈ نے رشیا  میں اہم عہدہ دے رکھا تھا ۔ وہ عام طور پر کسی کو رسیو نہیں کرتی تھی۔ لیکن ہیڈ کے کہنے پر وہ زین کو رسیو کرنے   ائیرپورٹ خود آئی۔

زین سے تمام ڈیٹا مموری کارڈ کی صورت میں لے لیا گیا ۔ جب وہ ائیر پورٹ سے اپنے ہوٹل روم میں پہنچا تو اس کو یہ دیکھ کر سکتہ طاری ہو گیا کہ وزیر اس روم میں پہلے سے موجود تھا۔ شانزلی روم میں داخل ہوئی تو وزیر سے مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا ۔ زین کچھ لمحے پہلے یہ سوچ رہا تھا شاید میں آج دنیا جیت چکا لیکن وزیر کو دیکھ کر وہ اپنے خواب چکنا چور ہوتے دیکھ رہا تھا ۔ وزیر نے اسے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھنے کو کہا ۔ زین دم سادھے اس پر بیٹھا تو توازن برقرار نہ  رکھ سکا اور نیچے گر پڑا ۔ وزیر نے زور دار قہقہ لگایا ۔۔۔

تم کیا سمجھتے ہو۔۔ مجھے بیوقوف بنا کر تم یہاں آزادی کی زندگی جیو گئے؟۔۔ تمھارے پل پل کی خبر ہمیں ملتی رہتی تھی ۔ شانزلی آگے بڑھی اور زین کے کانوں کے پیچھے سے ایک بال جتنی چپ اکھاڑ کر زین کے ہاتھ میں رکھ دی۔

وزیر نے زین کو دو آپشن دئیے یا یہ زہر کا پیالہ پی لو یا مفنامک ایسڈ کی گولی کھا کر خودکشی کر لو ۔ زین نے مفنامک ایسڈ کی گولی کھائی اور آرام سے سو گیا۔ وزیر شانزلی کو لے کر پی ٹی اے کے پاس آیا اور تمام ڈیٹا خفیہ بندے کے ہاتھوں پاکستان کے ایک سائکالوجسٹ ڈاکٹر تک پہنچا دیا جس نے آر ڈی رحمت فرنزانک لیب کے ترازو میں رکھ دیا۔ اور یوں یہ تمام گروہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہانی ختم !
جو دوست اس جاسوسی کہانی سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے یا کوئی بندا نکالنے کے چکر میں تھے تو ان کے لیے  معذرت صرف قصور شہر اور عمران نام کی مماثلت اتفاقی تھی سازشی تھیوری کے لیے  ڈاکٹر شاہد مسعود کو فالو کر سکتے ہیں۔ پہلے حصے میں جو دو میڈیسن کے نام تھے جن میں ایک پونسٹان گولی کا سالٹ تھا جو پین کلر ہے اور دوسری اٹار ویسٹاٹین کولیسٹرول کے لیے  تھے اور سوشل ایکسپریمنٹ کے لیے  تحریر کو موضوع قرار دے دیا  گیا تھا۔
میڈیسن تو شاید ہر کسی کو نہیں معلوم تھی البتہ سوشل ایکسپریمنٹ اور موضوع کا مطلب آپ گوگل سے سرچ کر سکتے ہیں۔
ایڈیٹر نوٹ: پہلی قسط کا اختتام ہر اردو جاننے والے کو یہ بتا رہا تھا کہ تحریر کی حقیقت کیا ہے۔ اس کے باوجود تحریر جتنا پڑھی گئی، جتنا شیئر ہوئی، یہ ہمیں سوچنے پہ مجبور کرتا ہے کہ قصور شاہد مسعود جیسوں کا ہے یا پھر ہمارا اپنا جو ہر سازشی تھیوری کو فوراً  سچ مان لیتے ہیں۔

پہلی قسط کا لنک:  انکشاف اور شروعات۔۔ مہر عبدالرحمان طارق

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply