ظالمو نکتہ ورو /عامر عثمان عادل

کہتے ہو عورت ہو کے اس نے ڈنکی کیوں لگائی
ایک ماں تھی ناں ممتا کے آگے ہار گئی
پیارے پڑھنے والو !
ترکی سے اٹلی جانے والی کشتی ساحل سمندر پر ایک چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی۔
کیسے کیسے خواب آنکھوں میں سجائے کتنے لوگ طوفانی لہروں کی نذر ہو گئے معصوم بچے خواتین نوجوان،ان میں ایک پاکستانی خاتون بھی شامل تھی کوئٹہ کی رہائشی شاہدہ رضا۔۔
ہاکی اور فٹ بال کی بہترین کھلاڑی مختلف مقابلوں میں قومی ٹیم میں شامل ہو کر وطن کی نمائندگی کر کے بہت سے اعزاز اپنے نام کر رکھے تھے۔
سوشل میڈیا کی چوپال پہ دانشوروں کی جان پہ بنی ہے کہ آخر اس عورت کو کیا پڑی تھی کہ یوں ڈنکی لگا کر اپنی جان گنوا بیٹھی اور پھر قومی سطح کی اس کھلاڑی کو یوں نہیں کرنا چاہیے تھا۔
کوئی ہے جو انہیں بتائے کہ حالات کا جبر اسے کھلے سمندروں کے بپھرے پانیوں میں لے گیا۔
ایک غریب مزدور کی بیٹی،7 سالہ بچے کی وفات سے نڈھال،خاوند سے علیحدگی کے بعد اس کی زندگی محض ایک کٹھن امتحان بن کہ رہ گئی تھی۔3 سال کا بیٹا معذور۔
پاکستان میں گلیمر اور پیسہ صرف اور صرف کرکٹ کے میدانوں میں ہے،فٹ بال اور ہاکی اور وہ بھی خواتین کے لئے محض ایک شوق کی آبیاری کا دوسرا نام۔۔
یہ پریشان تھی کہ ڈھنگ کی کوئی بھی نوکری ملنا محال تھا۔
اپنے 3 سالہ نور نظر کی معذوری پہ پہروں کڑھتی پریشان رہتی کہ کسی طرح پیسوں کو بندوبست ہو جائے تو اپنے لعل کا علاج کروا سکوں
کسی نے اسے بتایا کہ تمہارے بیٹے کا علاج بیرون ملک سے ممکن ہے لیکن اس پر اٹھنے والے اخراجات لاکھوں میں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک ماں نے ہر دروازہ کھٹکھٹا کر دیکھ لیا،قانونی راستے سے بیرون ملک منتقل ہونے کی کوئی کوشش بار آور ثابت نہ ہوئی
پھر اس نے ایک مشکل ترین فیصلہ کیا۔
اپنے بیٹے کے علاج کی خاطر ڈنکی لگانے کا ۔ تاکہ یورپ کے کسی ملک سیٹ ہو کر اپنے جگر کے ٹکڑے کا علاج کروا سکے۔
اکتوبر 2022 کو یہ اس سفر پہ روانہ ہوئی جو اس کا آخری سفر بن گیا
اٹلی کے شہر کرتون کے ساحل پہ سمندر کی لہروں میں ہاتھ پاؤں،مارتے ہوئے ایک بے بس ماں کی آنکھوں کے سامنے اپنے پیارے بیٹے کا چہرہ تھا اور آنکھوں میں بے بسی
میرے بچے مجھے معاف کر دینا
تمہاری ماں تمہاری خاطر کچھ بھی نہ کر پائی
کہاں ہیں وہ انسانی حقوق کے ٹھیکیدار
موم بتیاں جلانے والی لبرل آنٹیاں
کون ہے اس ماں کی وطن سے کوسوں دور بے بسی کی موت کا ذمہ دار ؟
یہ ریاست لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے اسپورٹس فیڈریشنوں کے نام نہاد کھڑپینچ،کوئی بینک کوئی مالیاتی ادارہ کوئی نجی کمپنی ایک مجبور عورت کو چند ٹکوں کی اسپانسر شپ فراہم نہیں کر سکتے تھے،
تف ہے ایسے نظام پر
جو ایک ماں کے درد کو نہ سمجھ پائے
تو اے میرے دانشورو !
یہ ایک ماں تھی
جو ممتا پہ قربان ہو گئی
اور یاد رکھنا
یہ جگرا صرف ایک ماں کا ہی ہوتا ہے جو اپنے بچے کو تکلیف میں دیکھتی ہے تو ڈنکی لگانے پر بھی تیار ہو جاتی ہے
وہ جس کا ایک ہی بیٹا ہو بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاو تو اہل دانش تم وہ تختی لے یا گندم لے۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply