راولپنڈی بند

نظریات اور زبان سے لاکھ اختلافات سہی لیکن کوئی شک نہیں کہ فرزند پاکستان(بقلم خود) شیخ رشید احمد ایک مکمل موقع پرست سیاستدان ہیں اگرچہ عوامی مسلم لیگ کے وہ خود ہی سربراہ ہیں اور خود ہی کارکن بھی لیکن اپنی زبان و بیان اور دوسری جماعتوں کے سٹیج کو استعمال کر کے اپنا سیاسی وزن تا دم قائم رکھے ہوئے ہیں۔



آج کا دن میں شیخ رشید احمد کے نام کرتا ہوں ۔کہ اگرچہ غیر ضروری تھا لیکن پھر بھی حکومت نے انکا جلسہ روکنے کے لیے لال حویلی اور گردو نواح کے راستوں کو کنٹینر لگا کر بند کیے رکھا۔شیخ رشید احمد بھی مختلف میڈیا ہاوسز میں اپنے چاہنے والوں کو اپنی لمحہ بہ لمحہ ویڈیو واٹس ایپ پر بھیجتے رہے ناشتے سے لے کر سہپہر میں کمیٹی چوک موٹر سائکل کے پیچھے بیٹھ کر اپنی ڈرامائی آمد اور رخصتی میں انہوں نے موبائیل ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کیا ۔



کمیٹی چوک پہنچنے پر انہوں نے میڈیا ڈی سی این جی پر چڑھ کر کسی ڈان کی طرح سگار ہونٹوں میں دبا کر مکے لہرائے اور میڈیا سے گفتگو کی۔ انکو گرفتار کرنا اگرچہ حکومتی پالیسی میں شامل نہیں تھا لیکن انہوں نے خوب میڈیا کوریج لے کرآج کے دن عمران خان جن کے لاکھوں چاہنے والے اس ملک اور بیرون ملک میں موجود ہیں کو بھی پچھاڑ دیا۔



لیکن دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ انکی آمد کے موقع پر کمیٹی چوک میں انکے استقبال کے لیے عوامی مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے کارکن موجود نہیں تھے اور جو اکا دکا تماشائی میڈیا کے علاوہ موجود تھے وہ بھی پولیس گردی کا شکار ہو گئے۔آج پنجاب پولیس نے سی پی او اسرار عباسی کی قیادت میں مری روڈ کے گردو نواح میں رہنے والے شرارتی تماشائی مظاہرین بچوں اور نوجوانوں پر سینکڑوں آنسو گیس کے شیل فائر کر کے اپنی نوکری پکی کی جس کے باعث ایک تین روزہ نومولود بھی جاں بحق ہو گیا۔



دن بھر آنسو گیس پھیپھڑوں میں بھرنے کے باعث جہاں یہ بلاگ لکھتے ہوئے میری آنکھں ابھی تک جل رہی ہیں وہاں اس معصوم کی موت بھی دل کی جلن میں اضافے کاسبب ہے۔حکومت نے شیخ رشید کا یہ جلسہ روک کر کیا کھویا کیا پایا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن میری زاتی رائے میں اس جلسے کو روکنا انتہائی غیر ضروری اور غیر جمہوری عمل تھا ۔بٹ گمانیاں۔۔۔خرم بٹ

Facebook Comments

خرم بٹ
فوٹو جرنلسٹ،مزاح نگار،کالم نگار،ون لائنر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply