کال سنٹر کی دنیا

2006 میں تھامس فریڈمین نے ایک کتاب لکھی، بعنوان the world is flat۔ موضوع تھا ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے خطے (خصوصا انڈیا، چائنا) میں آتی ہوئی تبدیلیاں۔ ان تبدیلیوں میں ایک معاشی خوشحالی بھی تھی۔ صحافتی دنیا کے اتنے بڑے دیو کے سامنے بالشتیا کیا کہہ سکتا ہے۔ ہمارے کنویں میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ انہی سالوں میں پرائیویٹ کال سنٹرز کی کھمبیاں اگتی دیکھیں۔ وہ مغربی ممالک، جہاں زیادہ تر آ بادی انگریزی زبان بولتی تھی، اپنا آن لائن نوئیت کا کام ان پرائیویٹ کال سنٹرز کو outsource کرنے لگے(ٹھیکا پر دینا سمجھ لیجئے)۔کال سنٹر، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ایسا بندوبست ہے جہاں کسٹمر اپنی شکایات کے حل یا معلومات کے حصول کے لیے فون کرے اور نمائندہ اس کو سہولت فراہم کرے۔ ان پرائیویٹ کال سنٹرز کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ مجرمانہ حد تک کم اجرت پر کام کرنے کو راضی پڑھے لکھے بیروزگار تھے۔ بیکار سے بیگار بھلی۔مزید یہ کہ اپنے مہذب ممالک میں یہ کمپنیاں ان انسانیت سوز شرائط پر کام نہیں لے سکتیں۔ امکانات کے باران میں یہ خطہ (بر صغیر) بہت زرخیز نکلا اور کاروباری دنیا کا اعتبار جیتنے میں کامیاب رہا۔ خود فریڈمین مثال دیتا ہے کہ بنگلور کے گالف کورس میں ایک ساتھی کھلاڑی نے اسے نشانہ یوں سمجھایا کہ دور افق پر نظر آتی مائیکرو سافٹ اور آئی۔ بی۔ ایم کی بلڈنگز کے بیچ میں ہٹ لگائے۔ وکٹر ہیوگو نے کہا تھا کہ اس آئیڈیا سے زیادہ طاقتور کچھ نہیں جس کے شروع ہونے کا وقت آگیا ہو۔ شارک تک خون کی مہک پہنچ چکی تھی۔ اب یہ پہیہ رکنے والا نہ تھا۔ کال سنٹر ہمارے خطے کے کلچر کا ایک نیا جز بن گئے۔ مشہور بھارتی مصنف چیتن بھگت نے اسی کلچر سے متعلق ایک دلچسپ ناول بھی لکھا One Night @ the Call Center جس پر بعد میں ایک فلم بھی بنی۔

ہمیں بھی ہماری پہلی نوکر ی ایک پرائیویٹ کال سنٹر میں ملی۔ پھرکچھ عرصہ بعد ایک ملٹی نیشنل موبائل نیٹ ورک کمپنی کے کال سنٹر میں چلے گئے اور وہاں پانچ سال گزارے۔ سچ پوچھئے تو اِسی کو پہلی جاب مانتا ہوں۔ وہاں سیکھی باتیں، تجربے اور سب سے بڑھ کر اس کلچر سے سیکھا گیا عزتِ نفس کا احساس۔ تب سے لے کر اب تک بندہ تین جا ب بد ل چکا ہے لیکن ان پانچ سالوں کا تشکر باقی سب پہ بھاری ہے۔

خیر، کال سنٹر ایجنٹ کا کام بہت منفرد نویت کا تجربہ ہے۔ یہاں کوئی دن نارمل یا بور نہیں ہوتا۔ تقریبا ہر دن بلکہ ہر کال اور کسٹمر ایک نیا اور شدید تجربہ ہوتا ہے۔ بہت اچھا تجربہ بھی ہو سکتا ہے، جہاں ایک مطمئن کسٹمر آپ کو دعا ئیں دیتا فون بند کرے۔ یا پھر انتہائی بُری آزمائش، جہاں کسٹمر کے جائز یا ناجائز غصے کا نشانہ آپ بن جائیں۔ غصہ کا یہ اظہاراکثر کف اڑاتے لہجے میں مغلظات کی صورت ہی میں ہوتا۔ ظاہر ہے، یہاں وہی کال کرے گا جسے سروس میں کسی پریشانی کا سامنا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ کال فورا مل جائے اور یہ لمبا انتظار زیادہ تر کسٹمر کا غصہ بڑھاتا اور ریہرسل کا وقت بھی دے دیتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب بھی ٹھیک تھا، لیکن ان سب نہلوں پہ دہلا ہوتا ہے crank caller۔ یہ کالر وہ جنتی خواتین و حضرات ہوتے ہیں، جو بغیر کسی مسئلہ کے، شغل کے طور پریا بوریت سے اکتا کر، کال سنٹر رابطہ کر لیں۔ یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں: جھوٹی شکایات، انٹ سنٹ سوالات سے مشتعل کرنے کی کوشش، ذاتی نویت کے سوال ۔ یہاں تک کہ گانا سننے کی فرمائش، اس وقت جاری میچ کا سکور اور ’ٹائم کیا ہوا ہے؟‘ بھی۔جہاں سروس کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے کال ریکارڈ کی جاتی ہے ، وہیں زیادہ سے زیادہ کسٹمرز کی خدمت کے لیے ہر ایجنٹ کو اپنی شفٹ میں کالز کی ایک مخصوص تعداد بھی مکمل کرنی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی کال بلاوجہ لمبی نہ ہو۔ کرینک کسٹمر اس پریشانی کو بڑھا دیتا۔ اس لیے اگر کسی کالر پہ شک ہوتا کہ یہ صرف وقت ضائع کرنے آیا ہے، تو ایجنٹ کی کوشش ہوتی کہ کال جلد از جلد مکمل ہو جائے۔کال جلد ختم کرنے کے لیے زیادہ تر اپنا لہجہ خشک اورجوابات مختصر کر لیتے۔ رویہ مذاحمتی اور کبھی کبھی جارحانہ بھی ہو جاتا۔ مگر ایک سبق بھی سیکھنے کو ملا۔ اکثر یوں ہوتا کہ کال کے شروع میں ہی ایک پٹھان بھائی ٹوٹی پھوٹی اُردو بولنا شروع کرتا۔ بیک گراوئنڈ میں قریب کھڑے اس کالر کے ساتھیوں کے ہنسنے کی آواز آتی۔ہمارے کان کھڑے ہو جاتے کہ یہ کوئی کرینک کالر ہے جو مذاق کر رہا ہے اور شاید کال ریکارڈ کر کے انٹرنیٹ پہ پھیلا دے۔ ردِعمل میں ہم روکھے پھیکے لہجے میں بات جلد ختم کر دیتے۔ کچھ عرصہ بعد ہماری ٹیم میں ایک پشتون ساتھی آیا تو اس نے ہمیں سمجھایا کہ شمال کی کچھ دور دراز علاقوں میں اردو بولنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ سو وہ لوگ کسی ممکنہ مذاق پر نہیں بلکہ اپنے دوست کو ایسی زبان بولتا دیکھ کر ہنستے ہیں جو وہ خود نہیں جانتے۔ مت پوچھیں کتنی پشیمانی ہوئی۔
مگر اکثر کوئی لطیفہ بھی ہو جاتا۔ کسٹمر کے لیے معلومات کمپیوٹر سے نکالنے میں اگر کچھ وقت لگ رہا ہو تو اس وقفہ میں کسٹمر سے کسی تھوڑی بہت خوشگوارگپ شپ کی اجازت تھی، بلکہ سکھائی جاتی تھی۔ ایسے ہی تپتی گرمیوں کے دن تھے۔ ایک ساتھی دوست نے کالر سے پوچھا کہ آپ کہاں سے بات کر رہے ہیں؟ جواب ملا، کشمور سے۔ نمائندہ شاید اسے کشمیر کا کوئی ملحقہ علاقہ سمجھا اور بولاآج کل اپکی طرف موسم تو بہت اچھا ہو گا۔ کسٹمر کا جواب لکھنے کی ہمت نہیں۔ بس یوں سمجھئیے کہ جیسے جغرافیہ کی غلطی درست کرانے پی۔ٹی ماسٹر آگئے ہوں۔
کئی قوانین اور ضوابط تھے، جن پہ عمل درآمد لازم تھا۔ لیکن کبھی بہت مشکل ہو جاتی۔ ایک ساتھی کی کال یاد آتی ہے۔ کالر کو ایک ویڈیو گیم کا code درکار تھا، جس کو ایس ایم ایس میں بھیج کر گیم ڈاؤن لوڈ ہوتی ہے۔ ہمیں کوڈ بتانے کی اجازت نہ تھی کہ کال غیر ضروری طور پہ لمبی ہو جاتی تھی۔ کسٹمر ہماری ویب سائٹ پر جا کر خود کوڈز دیکھ سکتا تھا۔ لیکن کالر مصر تھا کہ ان کا چھوٹا بچہ اس کے لیے تنگ کر رہا ہے۔ بیک گرائنڈ میں ضدی بچے کے رونے کی آرہی تھی۔ معذرت کی لیکن کسٹمر برابر درخواست کرتا رہا اور بچے کے رونے کی آواز آتی رہی۔بمشکل معذرت کر کے فون بند کر دیا گیا۔ لیکن تب تک نمائندے کو چین نہ آیا جب تک کسٹمر کو ذاتی نمبر سے کال کر کے کوڈ مہیا نہ ہو گیا۔ آپ سوچتے ہوں گے یہ کیسا رائی کا پہاڑبنایا جا ہے، اس میں ایسی کیا بڑی بات ہے؟ پچھلے سال دسمبر میں جناب محمد حنیف کا نیو یارک ٹائمز میں انٹرویو پڑھا۔ عنوان تھا ہمارے ہیرو۔ آپ کا تھاآخر کیوں ہمیں صرف جنگجو اور دیو ما لائی ہیرو ہی درکار ہیں۔ وہ لوگ جو سیدھی سادھی نوکری کریں ، ٹیکس ادا کریں اور اپنا کام پوری ایمانداری سے کریں ہمارے آئیڈیل اور ہیرو کیوں نہیں ہیں۔اور میرے یہ سب کولیگ ایسے ہی ہیرو ہیں۔

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply