سلطان راہی کی طرح کھڑاک وجاتے ہوئے، فضل الرحمان آئے، کلمہ ء شہادت ( دھاندلی پر گواہی) پڑھا اور پل بھر میں ڈیزل سے مولانا فضل الرحمٰن دامتہ برکاتہ مد ظلہ علیہ بن گئے۔
مینجمنٹ کے تمام مضامین میں کامیاب مینیجر کی خوبی ایسے سمجھاتے ہیں
” The Right Person making The Right Decisions at The Right Time”
نہایت عقلمندی اور مستقبل کی پیش بندی کو بھانپتے ہوئے فضل الرحمن نے فی الحال ( جب تک اپنے نئے بیانیے سے مکر نہیں جاتے تب تک) اپنی بقاء کو یقینی بنا لیا ہے۔
اس وقت 99 فیصد دانشور جمیعت کے بانی کے اس حیران کن موڑ کو سیاسی بصیرت پر مبنی فیصلہ قرار دے رہے ہیں اور اس کی وجہ پر بحث کر رہے ہیں۔پرانے دوستوں کی جانب سے دئے جانے والے بدترین دھوکہ کو اول وجہ سمجھا جا رہا ہے۔اس انوکھے رویہ کی ایک چھوٹی سی وجہ یہ ضرور ہے لیکن یہ اہم اور پہلی وجہ ہرگز نہیں۔
سماجی بقاء
پختون اور بلوچ ثقافت ظلم کے خلاف انتقام لینے پر ٹِکی ہے۔پی ڈی ایم دور میں علی آمین گنڈا پور کو گرفتار کر کے اس کی مونچھیں اور بال کٹوائے گئے۔اس پر بعد میں فضل الرحمٰن کا مضحکہ خیز اور طنز پر مبنی سلوک بھی میڈیا پر نظر آیا۔
عوام پر ظلم کی راتیں طویل کرنے والے اس وقت کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو جمیعت کے بانی نے “حکیم” کا لقب عطا کیا تھا گویا وہ تحریک انصاف کے لوگوں کا علاج کر رہے تھے۔
جے یو آئی ف کے پی کے میں بدترین شکست سے دو چار ہوئی. ایسی تنہائی اور دشمن کا گھیراؤ جماعت نے پہلے کبھی نہیں جھیلا تھا۔
جمیعت جان چکی تھی کہ نئے نامزد وزیر اعلیٰ کا مزاج کیسا ہے۔بدترین شکست، دوستوں کی طرف سے دھوکہ، کسی بھی صوبے میں پناہ گاہ میسر نہ ہونے پر فضل الرحمن اور ساتھی دشمن کے گھر میں لاوارث اور یرغمال محسوس کر رہے تھے۔مجلس عاملہ میں اس کے سوا دوسری کوئی رائے ہی نہ رکھی گئی کہ صلح کی جانب چل کر خطرات کو کم کیا جا سکے۔۔یہ ری ٹرینچمنٹ سٹریٹیجی کہلاتی ہے۔جس کے تحت زیادہ نقصان میں چلنے والے ادارے کا نقصان کم کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔
جمعیت نے عقلیت سے زمانہ فعل حال کا مطالعہ کیا اور فعل مستقبل کے لیے تیاری کر کے ، بربادی اور تباہی کے خطرے کو وقتی طور پر سر سے ٹال دیا۔
ایسا خطہ جہاں 90 فیصد ووٹس مخالف پارٹی کو ملے ہوں وہاں سرینڈر نہ کرنا، گھٹنے نہ ٹیکنا،پانی میں رہ کر مگر مچھ سے دشمنی پالنے کے مترادف ہے۔
سرینڈر کرنے پر فضل الرحمٰن کو مخالف جماعت سے اس قدر قابل ستائش اور گرم جوش استقبال ملا کہ کل تک جس کی کانفرنس لگتے ہیں لوگ ٹی وی توڑ دیا کرتے تھے۔
آج اس کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈی پی کے طور پر ٹرینڈ بنی رہی ہے،
جہاں اسے ڈیزل کہہ کر مخاطب کرنا لوگوں کا ٹائم پاس بنا ہوا تھا،
آج وہ انتہائی معزز القابات سے نوازے جا رہے ہیں،
یہ بہت بڑا سماجی سفر ہے جو مولانا نے صرف ایک جست میں طے کیا،
سیاسی بقاء
چھ دن تک فضل الرحمٰن اس آس پر ٹی وی دیکھتے رہے کہ جہاں ن لیگ سمیت دوسری جماعتیں نوازی جا رہی ہیں۔ان کو بھی آخر میں دل کھول کر نوازا جائے گا۔
کے پی کے نہ سہی،ن کے پنجاب اور پی پی کے سندھ کی طرز پر جمعیت کو بلوچستان ہی دے دیا جائے گا،لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
انتظار ضائع گیا۔۔
فضل رحمان نے پرانے دوستوں کی طرف حسرت و یاس سے دیکھا اور جھٹک کر کے ٹوٹ گیا،ٹوٹے ہوئے انسان کو وہ گناہ بھی قبول کرنا پڑتے ہیں جو اس نے نہ کیے ہوں،ٹوٹے ہوئے انسان کے ساتھ گفتگو کرنے کا ایک لطف یہ بھی ہے کہ اس کا جسم جھوٹ اور دکھاوے سے لڑتے لڑتے عاجر آ چکا ہوتا ہے اور اب وہ مزید اداکاری کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
جمیعت علمائے اسلام ف کا جسم بھی مزید اور مسلسل جھوٹ کا بوجھ سہہ نہ پایا اور ڈھے گیا۔
بانی پی ٹی آئی کے متعلق ماہرین کا دعویٰ عجیب و غریب ہے، ایسا دعویٰ مسٹر باجوہ نے بھی کیا کہ عمران خان بیانیہ ڈیولوپ کرنے میں ماہر ہے، اس فن میں اسے کوئی نہیں ہرا سکتا۔
صحافی برادری بھی بار بار یہی زور دیتے ہوئے نظر آتی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان جیسا نیریٹو بلڈنگ کسی کو نہیں آتا۔
کیا سچ مچ ایسا ہی ہے؟
ہرگز ہرگز ایسا نہیں، یہ کوئی آرٹ نہیں ہے، یہ کوئی سائنس نہیں ہے، یہ محض ایک اصول ہے لیکن بڑا اہم اصول ہے
اور وہ ہے “سچ بولنا”۔
سچ بولنا مشکل ہے مگر یہ طاقت، وسعت اور قبولیت فراہم کرتا ہے۔تحریک انصاف کے مخالفین بڑی محنت سے روکھے پھیکے بیانیے بناتے ہیں۔کسی میں مصلحت، کسی میں بھاری اردو، کسی میں عجیب مریخی دلائل، کسی میں تُکے، کسی میں اعتراض، کسی میں مخول شامل کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ جس عوام کے سامنے ہم بیان دینے جا رہے ہیں ،”وہ بے وقوف ہیں ”
مخالف جماعتوں نے سیکھا ہی یہی طریقہ سیاست تھا۔اس وقت پی ٹی وی کا دور تھا، سوشل میڈیا تھا نہیں ،لوگ یعنی عوام اپنا ردعمل دیتے بھی تو کہاں دیتے؟
“وہ سال دوسرا تھا، یہ سال دوسرا ہے”
عوام کو بے وقوف سمجھنے والے،. جھوٹ کو رگڑ رگڑ کر پلانے والے آج اپنی زندگی کا آخری سانس لینے میں مشغول ہیں۔
فضل رحمان یہ انداز بھانپ گیا تھا، وہ جان گیا تھا کہ عوام کیا سننا اور کہنا چاہتی ہے۔
جمیعت علماء اسلام کے پاس واحد راہ ہی یہی تھا کہ
اقبال ِ جرم کرے اور سچ بولے
اس نے وہی کیا اور فی الحال خود کو محفوظ کر لیا۔
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں