بوجھ عوام پر ہی کیوں ؟-مظہر اقبال کھوکھر

سرائیکی کی ایک مثال ہے۔ ” گھر دانڑیں کوئینی ۔۔ تے اماں پیہنڑں گئی ہے ” یعنی گھر میں گندم نہیں ہے اور اماں چکی پر پیسنے گئی ہے۔ آج کل ہمارے ملک کی کچھ ایسی حالت ہے۔ ایسا نظر آتا ہے ہمارے ملک میں بھی کچھ نہیں ہے۔ آٹا لینے جائیں تو آٹا نہیں ملتا۔ پیٹرول پمپ پر جائیں تو لمبی لمبی لائنیں ہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے چُلّو  بھر پیٹرول دے دیتا ہے ورنہ لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔ کبھی گیس نہیں ملتی۔ کبھی ادویات نہیں ملتیں۔ پچھلے دنوں تو حد ہی ہوگئی ہمارے علاقے میں جانوروں کا چارہ غائب ہوگیا۔ یعنی ہر روز ایک نئی چیز مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہے۔ مگر حکمرانوں کے سب اچھا ہے کے  چونچلے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔

10 روز تک آئی ایم ایف کے وفد سے جاری رہنے والے مذاکرات ختم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو حکومت کی طرف سے بیان جاری کیا گیا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا عمل مکمل ہو چکا ہے آج حتمی معاہدہ ہوجائے گا،مگر کسی معاہدے کے بغیر آئی ایم ایف کا وفد واپس چلا گیا۔ ایک وقت تھا ملک میں آئی ایم ایف سے نجات کے نعرے پر الیکشن لڑے جاتے تھے۔ قرض اُتارو ملک سنوارو کی مہم چلائی جاتی تھی۔ اور آج یہ وقت ہے  کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کو اپنی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کو اپنی معاشی مہارت کہا جاتا ہے اور قرض لے کر قرض اُتارنے کو حکومتی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ جمعہ کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف وفد سے 10 روز تک جاری رہنے والے مذاکرات میں توانائی اور مالیاتی شعبوں میں اصلاحات پر بات چیت ہوئی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنے میں کوئی ابہام نہیں۔ حکومت اپنے تمام وعدے پورے کر کے پروگرام پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ انھوں نے کہا آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کے مطابق محصولات کو پورا کرنے کے لیے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جائیں گے۔ جس کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ کیونکہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیٹرول پر لیوی مکمل ہو چکی مگر ڈیزل پر لیوی ٹیکس لگایا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں منی بجٹ کے امكان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے سے قبل حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں۔ معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پیٹرول ، ڈیزل ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ در آمدی اشیاء پر مزید ٹیکس لگائے گی۔ جس کا براہ راست بوجھ عام عوام پر پڑے گا اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا۔ جبکہ اس سے قبل عوام مہنگائی کے جس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک اس وقت سنگین معاشی صورتحال سے دوچار ہے اور سب سے متاثر طبقہ عام لوگ ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حکمرانوں کو اس کا رتّی برابر احساس نہیں۔ کیونکہ دو روز قبل کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری کیے  گئے نوٹیفكیشن کے مطابق وزیر اعظم نے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی محمد اجمل خان ، شائستہ پرویز ملک اور قیصر احمد شیخ سمیت 7 نئے معاونین خصوصی مقرر کیے ہیں۔ جس کے بعد کابینہ اراکین کی مجموعی تعداد 85 ہوگئی ہے۔ جن میں 34 وزراء ، 7 وزرائے مملکت ، وزیر اعظم کے 4 مشیر سمیت 40 معاونین خصوصی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ 38 پارلیمانی  سیکرٹری ہیں جو ایوان زیریں میں وزراء کی غیر حاضری میں سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔

حیران کُن پہلو یہ ہے کہ اب تک 19 معاونین خصوصی ایسے ہیں۔ جن کے پاس کوئی قلمدان نہیں۔ یعنی پی ڈی ایم اتحاد نے ایک دوسرے کو راضی رکھنے کے لیے انہیں معاونین مقرر کیا ہوا ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کا مؤقف ہے ان میں زیادہ تر ایسے ہیں جو کوئی تنخواہ نہیں لے رہے۔ مگر وزراء کے برابر پروٹوکول ، مراعات ، الاؤنسز اور پھر اتنی بڑی کابینہ خزانے پر بوجھ نہیں تو کیا ہے۔ مگر خزانے کا بوجھ ہو یا ٹیکسز کا بوجھ ، کابینہ کا بوجھ ہو یا ان کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھانا تو غریب عوام نے ہوتا ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو احساس ہی نہیں۔ ایک طرف قرض اتارنے کے لیے قرض لیا جارہا ہے ، منہ زور مہنگائی کی وجہ سے عوام کا جینا دوبھر ہو چکا ہے، بھوک ، غربت، بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے اور پاکستان تاریخ کی بد ترین معاشی صورتحال سے دو چار ہے اور دوسری طرف کابینہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات درست ہے کہ ہمارے ماضی اور حال کے حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ناگزیر ہے۔ مگر اس میں عوام کا کیا قصور ہے۔ ماضی میں قرض لے کر عیاشیاں حکمرانوں نے کی  ہیں تو اس کا بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جارہا ہے۔ اگر معیشت کی بحالی آئی ایم ایف کے قرض سے ہی ممکن ہے تو اس کے لیے 85 رکنی جہازی سائز کابینہ کی کیا ضرورت ہے۔ 25 ركنی کابینہ سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ مگر ” مال مفت دلِ  بے رحم ” کے مصداق حکمرانوں کو اس کا رتّی برابر احساس نہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر حکمران واقعی ملک کو معاشی بد حالی کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں تو انہیں آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بوجھ عام عوام پر ڈالنے کے بجائے اپنی جہازی سائز کابینہ کا حجم کم کریں ، غیر ضروری اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی لائیں، تنخواہیں اور مراعات کم کریں ، مفت بجلی اور پیٹرول ختم کریں، بڑی گاڑیوں پر پابندی عائد کریں۔ ورنہ عوام تو اس بوجھ تلے سسک ہی رہے ہیں مگر حکمران بھی نہیں بچ پائیں گے۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply