فیض کی شاعری کا لسانی پہلو/شاہد عزیز انجم

شاعری کا ایک اہم پہلو لسانی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی شاعر کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کرتے ہوئے اس کے اہم پہلو یعنی لسانی پہلو کو بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ شاعری بنیادی طور پر ایک مخصوص لسانی عمل ہی کا نام ہے۔ جس طرح مصور اپنے ذریعہ اظہار کے لیے رنگ اور کینوس کا استعمال کرتا ہے اور موسیقار کا ذریعہ اظہار آلاتِ موسیقی ہوتے ہیں، اسی طرح شاعر اپنے جذبات اور تجربات کا اظہار الفاظ کے ذریعے کرتا ہے۔وہ الفاظ ہی کی ترتیب و تشکیل سے شاعرانہ تجربے کو ایک تشخص عطا کرتا ہے۔ شاعری کی بنیادی ضرورت، اس کا لسانی شعور ہی ہے اگر شاعر بے حد نازک خیال اور گوناگوں تجربات کا مالک ہو لیکن لسانی اظہار پر قادر نہ ہو تو اس کا وجود عدمِ مادی ہو جاتا ہے۔

جس قدر کوئی شاعر لفظوں کا نبض شناس ہوتا ہے اس قدر اس کا شعر ارادی کوشش سے طے شدہ موضوع کو لفظوں کا جامہ  نہیں پہناتا۔ وہ اپنے داخلی وجود کی گہرائیوں میں ابھرنے والے پر اسرار تجربات کو پہچانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر ان کی لفظی تجسیم کرتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ زبان کے تخلیقی امکانات پر بھی نظر رکھتا ہے۔ اگر شاعری کی مروجہ یا روایتی زبان اس کے داخلہ تجربات کی متحمل ہو سکتی ہے تو اسے برتتا ہے عموماً یہ ہوتا ہے کہ روایتی زبان کثرت استعمال سے اپنی توانائی، شادابی اور معنویت کھو بیٹھتی ہے۔ لکھنوی دور میں اردو غزل رسمی اور روایتی زبان کی بنا پر تخلیقی سحرکاری سے محروم ہو گئی۔ اقبال نے بیسویں صدی میں اپنے تجربات کی توانائی جدت اور برتری کی وجہ سے غزل میں اہم تبدیلیاں پیدا کیں۔ انہوں نے اپنے روایتی علامتوں کو نئے ادراک کے ساتھ استعمال کیا۔ چنانچہ آشیاں، صیاد، گلستان، صحرا، سورج، ستارے، شبنم، ساقی، صبا اور آتش جیسے روایتی الفاظ نئے علامتی امکانات سے سامنے آئے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے خیمہ، خودی، آفتاب اور لالہ کو پہلی بار علامتی انداز میں برتا اس سے اردو غزل کی زبان میں تبدیلی آئی۔

فیض کی شاعری کے لسانی پہلو پر نظر ڈالیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں لائے۔ ان کا ذہن اردو کی روایتی زبان کو قبول کر چکا تھا اور یہ زبان ان کے لاشعور کا حصہ بن چکی تھی۔ لیکن چونکہ وہ ایک سچے شعری ذہن کے مالک ہیں اور اس کا اظہار ان کے لیے لازمی تھا، اس لیے اگرچہ انہوں نے زبان میں انقلابی تبدیلی پیدا نہیں کی مگر اس کو نئے شعور سے ضرور برتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ فیض نے اردو شاعری کو کوئی نئے الفاظ نہیں دیے لیکن ان کی نظموں اور غزلوں میں موسم، بہار، بام، گل، صیاد، خزاں، شام، سحر، شبنم، ساغر، زنجیر، آگ قبا، مہتاب، دشت، زندان، قافلہ، جیسے الفاظ اور پیکر نئے علامتی مفاہیم کو جگاتے ہیں۔ فیض الفاظ کو چن چن کر استعمال کرتے ہوئے مماثل اور ناگزیر الفاظ میں فرق کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر ناگزیر لفظ کو ہی برتتے ہیں۔ اس سے ان کی لفظ شناسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ روایت کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور جدت پسندی کے نشے میں روایت سے اپنے رشتے کو ختم نہیں کرنا چاہتے۔ وہ روایت اور تجربے کے امتزاج پر یقین رکھتے ہیں۔ ہر دور کی اچھی شہری روایت کے سرچشموں سے فیضیاب ہوتی ہے اور پھر نئے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو بدلتی ہے۔

فیضؔ کی غزل بھی روایت سے منسلک ہونے کے باوجود جدت، تازہ کاری اور انفرادیت کا احساس دلاتی ہے۔ فیض کی غزلوں کی تعداد مختصر سہی تاہم اس مختصر سے مجموعہ غزل نے اردو کی غزلیہ روایت کو ایک نئی جہت عطا کی۔نظیر صدیقی کا یہ خیال محمل نظر آتا ہے کہ “فیضؔ کے ہاتھوں اردو غزل کسی نئی بلندی تک نہیں پہنچتی۔” فیض نے غزل کو نئے معنیٔ جہات سے آشنا کیا۔ اقبال نے غزل کو اس کی داخلیت سے برقرار رکھتے ہوئے اپنے جوشیلے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور اردو غزل کو ایک توانا لہجے سے آشنا کیا۔ اسی طرح فیضؔ نے غزل کو اپنے سیاسی، سماجی اور اجتماعی تصورات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے یہ مشکل کام بڑی فنکارانہ چابک دستی سے انجام دیا۔ انہوں نے غزل کی ہیت کو خوب مانجھا اور اسے صیقل کیا۔یہاں تک کہ ان کی غزل خالص سونے کی طرح دمکتی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ ان کا کلام مقدار کے لحاظ سے وافر نہیں لیکن اس سے ان کی قدر و قیمت کم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ادب اور شاعری میں مقدار سے نہیں بلکہ کیفیت کے لیے لحاظ سے فنکار کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ انگریزی فکشن میں Wuthering Heights جیسا ناول لکھ کر اس کے مصنف کو شہرت دوام ملی۔ اسی طرح میر تقی میر نے چھ مکمل اور بھرپور دواوین لکھ کر محض مقدار کی بنا پر خدا سخن کا لقب نہیں پایا۔ بلکہ مشکل سے چھ سو کے قریب اشعار ان کی عظمت کے ضامن ہیں۔ بقیہ کلام معمولی درجے کا ہے اور کلامِ منظوم کے ذیل میں آتا ہے۔
ف

یضؔ کی قدر سنجی اور ناقدانہ شعور کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کم گوئی پر اکتفا کرتے ہیں اور جو شعر کہتے ہیں اس پر بے حد محنت صرف کرتے ہیں۔ وہ ایک ایک لفظ کا انتخاب بے حد کاوش اور عرق ریزی سے کرتے ہیں۔ اور اس انتخاب اور تراش خراش سے شعر کے آئینہ خانے سجاتے ہیں۔ مثال دیکھئے:
دستِ فلک میں گردشِ تقدیر تو نہیں
دستِ فلک میں گردشِ ایام ہی تو ہے

یاد غزالِ چشماں ذکر سمن غدارں
جب چاہا کر لیا ہے کنج قفسِ بہاراں

کبھی تو صبح تیرے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشکبار چلے

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

اس شعر میں گل، رنگ، بادِ نو بہار، گلشن اور کاروبار تلازمی شہرت رکھتے ہیں۔ یوں تو یہ سارے الفاظ روایتی ہیں لیکن فیض نے اپنے سوزِ نفس سے ان میں تب و تاب پیدا کی ہے۔ پہلے مصرے کو پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلشن میں پھول تو کھلے ہیں لیکن رنگ سے محروم ہیں اور بادِ نو بہار ہے مگر حرکت سے عاری گویا گلشن میں بے حسی اور تعطل ہے۔ دوسرے مصرعے میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کسی کے انتظار میں گلشن کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ اور شاعر کہتا ہے کہ وہ آئے تو گلشن کا کاروبار چلے گا۔ اس مصرعے میں گلشن کی پوری فضا اس کی حرکت، رنگ و خوشبو، نغمہ، چہل پہل اور زندگی کو لفظ کاروبار جیسے عام کاروباری لفظ سے ادا کیا گیا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے ایک عام سے لفظ کو شعری سیاق میں غیر معمولی بنا دیا اور یہ لفظ دوسرے الفاظ کے ساتھ خوبی سے کھپ گیا ہے۔
فیضؔ کے مذاقِ شعری میں رچاؤ اور بالیدگی ملتی ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب میں بھی اسی رچے ہوئے شعور کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ جواہر پاروں کی دمک، تابش اور صفائی رکھتے ہیں۔ ان کے کلام میں موسم، لہو، انتظار، راہ گزر، بہار، سحر، کرن اور خوشبو بار بار آتے ہیں اور ان کے ارفع مذاق کو ظاہر کرتے ہیں۔فیض ؔبنیادی طور پر شعر کا کلاسیکی مزاج رکھتے ہیں۔ وہ اردو شاعری کے ورثے پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ انہوں نے انگریزی شاعری کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اس وسیع مطالعے سے انہیں اپنی شعری مزاج کی تربیت میں کافی مدد ملی ہے۔

فیضؔ کی شخصیت حسیاتی قوتوں سے آراستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں اور غزلوں میں بار بار حسیاتی پیکر نظر آتے ہیں۔ یہ پیکر بصری، لمسی، سمعی اور شامی ہیں جو ان کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ دید رکھتے ہیں اور گرد و پیش کے مظاہر، اشیاء و موجودات سے گہرے طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے ان میں فیض نے حسیاتی تجربوں کی مصوری کی ہے:
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں
دل عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں

اس کے علاوہ فیضؔ کی نظمیں مثلاً “شام” اور “شاہراہ” ایک مکمل پیکر کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ فیض ایک شاعر کی طرح بے پناہ جذبات کے مالک ہونے کے باوجود تہذیبِ نفس سے اپنے جذبات کو پر قابو رکھتے اور پھر کافی غور و فکر کے بعد ان جذبات کو محسوسِ فکر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس تہذیب و تشکیل کے عمل سے ان کے یہاں ایک منفرد آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک مدھم، پرسوز اور دل نشیں آہنگ ہے، جو روح کے تاروں کو مرتعش کرتا ہے اور متنوع کیفیات سے آشنا کرتا ہے۔وہ تجربے کی اصلیت اور شدت کے مطابق آہنگ میں بھی مد و جزر پیدا کرتے ہیں۔ اور دلوں میں قوس و قزح کے رنگ بکھیرتے ہیں۔ کبھی چھوٹی بحروں، شگفتہ زمینوں اور مترنم لفظوں اور کبھی طویل بحروں، خوبصورت پیکروں اور رچے ہوئے علائم سے ایک ایسی فضا کی تخلیق کرتے ہیں جو نغمہ رنگ سے معمور ہوتی ہے۔
زیرِ لب ہے ابھی تبسم دوست
منتشر جلوۂ بہار نہیں

اک تیری دید چھن گئی مجھ سے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

Advertisements
julia rana solicitors

فیضؔ نے اختر الایمان یا پھر کسی دوسرے جدید شاعر کی طرح نئے الفاظ استعمال نہیں کیے اور نہ ہی میرا ؔجی کی طرح ایک لچکدار زبان برتی۔ انہوں نے زبان میں کوئی تبدیلی پیدا نہ کی بلکہ ایک روایتی زبان ہی کو اپنا وسیلہ اظہار بنایا۔ ان کی علامتیں بھی اردو شاعری کے روایتی الفاظ سے ماخوذ ہیں۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نا گزیر الفاظ کی شناخت کی اور پھر لفظوں کے مرکبات سے شعری لسانیات کو ایک دل پذیر شکل عطا کی۔ مجموعی طور پر ان کا لسانی شعور روایتی، تکمیلی اور شائستہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply