سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/ہارون الرشید کی زبیدہ سے ملاقات(قسط14)۔۔۔سلمیٰ اعوان

ہمارے لئیے زبیدہ ہمیشہ سے تاریخ میں نور جہاں کی ٹکر کی رہی۔نور جہاں کی کہانیوں نے اگر مسحور کیا تو ہارون کی چہیتی زبیدہ بھی کِسی سے پیچھے نہیں تھی۔اُس انجینئر کی آنکھوں کی چمک اور لہجے سے چھلکتا اشتیاق مجھے اکثر یاد آتا ہے جو میرے سکول میں پڑھنے والی بچی کا باپ تھا اور جسکی خدمات سعودی عرب نے نہر زبیدہ کے سلسلے میں حاصل کی تھیں۔
کیا عورت تھی۔جی دار،پُر عزم،شعر و ادب کی دلدادہ اُس کی سرپرست،سخی اورسماجی بھلائی کے کاموں میں پیش پیش۔ہارون الرشید کے ساتھ جب حج کیلئے گئی تو راستے کی مشکلات سے ذاتی طور پر آگاہ ہوئی۔حُکم دیا کہ جن راستوں سے حج کیلئے زائرین کے قافلے آتے ہیں وہاں مناسب فاصلوں پر سراہیں بنائی جائیں اور کنویں کھودے جائیں۔
دوسرا حکم زائرین کے ٹھہرنے کیلئے ایک بے حد وسیع و کشادہ عمارت کی تعمیر کا تھا۔
اور تیسرا اُس نہر کیلئے جو مدینہ منورّہ کے چشمے سے مکہ تک پانی لے جائے کہ اہلِ مکّہ کو پانی کی شدید تنگی تھی۔گورنر مکّہ دم بخود تھا۔ایسا مہنگا پروجیکٹ۔عرض کی۔ملکہ عالیہ فاصلہ بہت زیادہ ہے اور خرچہ بھی بہت۔
”جو میں نے کہا کرو۔خرچ لاکھوں چھوڑ کروڑوں میں بھی ہو پرواہ مت کرو۔“
تو اِس وقت میں اُسی عظیم خاتون کو خراج پیش کرنے جا رہی تھی۔
یہ امت العزیز تاریخ میں زبیدہ ہارون کی چچا زاد بیوی کی حیثیت میں بڑی زبردست اور تاریخ ساز ملکہ تھی۔ازدواجی زندگی کا ایک پہلو کتابوں میں سے نکل کر اُڑتے ہوئے میرے سامنے آگیا تھا۔
دونوں میں اگر محبت مثالی تھی تو اختلاف رائے میں زبیدہ کے ہاں لحاظ یا مروت میں چُپ رہنے والی کِسی حکمت کا کوئی تصور تک نہ تھا۔
بات تو معمولی سی تھی۔زبیدہ درست تھی۔اس کی بات میں وزن بھی تھا اور دلیل بھی۔ہارون البتہ کج بحثی پر اُتر آیا تھا۔مردوں والا جھوٹی انا اور حاکمانہ رعب دوب کا عنصر بھی بیچ میں شامل ہو گیا تھا۔اسی لئیے زچ کرنے پر تُل گیا تھا۔
وہ شوہر پرست ضرور تھی۔پر فضول اور غلط بات برداشت سے بھی باہر تھی۔غُصّے میں پیچ و تاب کھاتے ہوئے اٹھی اور بولی۔
”جہنمی ہو تم۔دوزخی ہو۔“
مردانہ انا کو شدید زک پہنچی تھی۔اعصاب قابو میں ہی نہ رہتے تھے۔غُصّے کی انتہا پر سے دھاڑا۔
”اگر میں دوزخی ہوں تو تجھے طلاق دیتا ہوں۔“
ایک کربناک چیخ زبیدہ کے اندر سے نکلی اور وہ چھاتی پیٹتی اپنے حصّے کی طرف بھاگ گئی۔
غُصّہ اُترا تو اُسے احساس ہوا کہ زبیدہ تو سانسوں کی آمدورفت کی طرح اُس کے اندر اُتری بیٹھی ہے۔وہ جیئے گا کیسے؟بات محل سے دربار اور دربار سے بغداد کے گلی کوچوں میں اُتر گئی تھی۔ہر خاص و عام انگشت بد ندان تھا کہ یہ ہوا کیا؟
بغداد کے علما اکھٹے ہوئے۔ہر ہر پہلو سے غور و خوض ہوا۔کامیابی کا کہیں کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا۔حضرت امام محمد کو بلایا گیا۔وہ بھی ناکام رہے۔اِسی دوران امام محمد شافعی کے کانوں میں بھی اُڑتے اُڑتے یہ خبر پہنچی۔انہوں نے اپنے استاد امام محمد کو کہلا بھیجا۔میرے پاس اِس مسئلے کا حل ہے۔
درباروں میں حاضری دینا امام محمد شافعی کا طریق نہ تھا۔امام محمد نے کہا کہ اس وقت خلیفہئ وقت سے کہیں زیادہ یہ انسانی مسئلہ ہے۔آپ کا میرے ہمراہ چلنا ضروری ہے۔اُستاد کا احترام کرتے ہوئے دربار میں حاضر ہوئے۔سوال کیا۔
”کیا آپ کی زندگی میں کبھی ایسے لمحے آئے جب آپ گناہ کرنے پر قادر تھے لیکن صرف خوفِ خدا کے باعث گناہ سے باز رہے۔“
ہارون الرشید کی آواز میں اضطراب تھا۔ جوش تھا۔وہ بے حد جذباتی تھا۔
”میں خدا کو حاضر جان کر قسمیہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت بار ایسا ہوا میں گناہ پر قادر تھا مگر خدا کے ڈر سے باز رہا۔“
”تو پھر سُن لیجئیے کہ میں فتو ٰ ی دیتا ہوں۔آپ ہر گز دوزخی نہیں۔اہلِ جنت میں سے ہیں۔“امام شافعی کی آواز متانت اور عالمانہ وقارسے بوجھل تھی۔
دربار میں جو علماء بیٹھے تھے وہ کونسا کم تھے۔بول اُٹھے تھے۔
”دعوٰی دلیل سے خالی ہے۔بے وزن ہے۔“
آپ مسکرائے۔قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی۔مطلب تھا۔
”جو گناہ کا ارادہ کرے اور خوف خداسے باز رہے اس کا مقام جنت ہے۔“ علماء دنگ تھے۔ہارون الرشید کا چہرہ مسرت سے سُرخ تھا اور امام کی آواز گونجتی تھی۔
”جب امیر المومنین دوزخی نہیں تو پھر طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔“
ماں کے رُوپ میں بھی ایک گوشے نے نقاب میں سے جھانک کر متوجہ کیا تھا۔ایک ماں کے جذبات و احساسات کا نمائندہ واقعہ۔
امین زبیدہ کا بیٹا گو خوبصورت،ادب نحو و فقہ میں با کمال پر عیش پرست اور آرام طلب بھی بہت۔وہیں مامون بار غیس(ہرات) کی مراجل نامی کنیزکے بطن سے۔شکل و صورت میں بالکل عام سا مگر متانت،بُردباری، حلم،علم و کمال، آداب فرزندی میں اپنی انتہا کو پہنچا ہوا۔
باپ کے جذبات کا اظہار اکثر و بیشتر دونوں بیٹوں کی عادات و خصائل کے مقابلے کی صورت میں نہ چاہتے ہوئے بھی ہو جاتا۔زبیدہ رنجیدہ ہوتی۔ہارون الرشید سے جھگڑتی اور طعنے دیتی۔
”تم ایک کنیز زادے کو میرے عربی النسل بیٹے پر ترجیح دیتے ہو۔“
ہارون صفائی پیش کرتا۔ اکثر دونوں کا امتحان لیتا اور دلیل سے اُس فرق کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا جو دونوں میں تھا۔
زبیدہ شرمندہ ہوتی مگر ماں تھی نا۔
زبیدہ کی شخصیت کا ایک اور رُوپ میرے سامنے تھا۔امین کو تخت تو مِل گیا مگر اس کی ہوس اقتدار کا پھیلاؤ بڑھتا ہی چلا جاتا تھا۔باپ کی نصیحت کہ امین کے بعد مامون خلافت کا حقدار ہوگا امین سے زیادہ اس کے بدخواہ خیرخواہوں سے ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ مامون کی صورت ایرانی غلبہ پالیں گے۔مامون کی ماں ایرانی نسل تھی نا۔
کعبے میں آویزاں وصیت نامہ منگوا کر ٹکڑے کر دیا گیا۔
جنگ کا طبل بجا تو آغاز میں امین کا پلّہ بھاری تھا۔
مامون کا کمانڈر علی بن عیسیٰ خراسان مامون کی سرکوبی اور اس کی گرفتار ی کے لئیے روانہ ہونے لگا تو زبیدہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
”علی تمہیں خدا کے بعد میری قسم جو تم اس پر رتی برابر سختی کرو۔یاد رکھو اگر امین میرے دِل کا ٹکڑا ہے تو وہ بھی مجھے کم پیارا نہیں۔جب تم اس پر قابوپالو تو اُسے اُسی شان اور احترام سے لانا جو اُس کے لئیے ضروری ہے۔وہ اگر تم سے تلخ ہو جائے تو برداشت کرنا۔اس کے سوار ہونے سے پہلے خود نہ سوار ہونااور ہاں تم نے صرف یہ پہنا کر اُسے قید کرنا ہے۔“
زبیدہ نے خوبصورت چاندی کی زنجیر اس کی طرف بڑھائی۔
اور علی بن عیسیٰ نے آداب بجا لاتے ہوئے کہا ”آپ کی ہر بات کی تعمیل ہوگی“ پر اس کا تو وقت ہی نہ آیا۔
محلوں میں رہنے والی اُس عظیم ملکہ پر وقت پیغمبری پڑا۔
امین قتل ہوا۔جوان بیٹے کی موت۔
بیوہ ماں کے نالے۔
وہ محل مینارے سب اِس لڑائی میں زمین کا رزق ہوئے اور بغداد کی شہزادی گلی کوچوں میں اُڑتے پھرتے تنکوں سے بھی ہلکی ہوئی۔
انقلابات زمانہ تیرے رنگ کیسے کیسے؟
ٹیکسی سٹینڈ پر افلاق موجود تھا۔بتاتا تھا کہ اُسے کوئی تین گھنٹوں کیلئے اپنے عزیز کے کسی کام کے لئیے بغداد یونیورسٹی جانا ہے۔
پاس کھڑے دو نوجوانوں کی طرف اشارہ کیا۔
”اپنا خیال رکھئیے گا۔آپ کا پروگرام حریّہ اور کرخ کا ہے۔آپ سے میں رابطے میں رہوں گا۔اگر کچھ اساتذہ وہاں ہوئے تو پھر سعدی آپ کو وہاں لے آئے گا۔“
افلاق کی مجھے عادت ہو گئی تھی۔گو دن تو ابھی چار ہوئے تھے۔ پانچویں کی آج صبح تھی پر تقریباََ دس بارہ گھنٹے کا ساتھ مجھے تو لگتا تھا میں زمانوں سے اُسے جانتی اور اُس کے ساتھ رہتی چلی آ رہی ہوں۔
گاڑی نے رفتار پکڑی اور ٹیپ بھی آن ہوگئی۔مجھے موسیقی کے سازوں کی تھوڑی سی شد بُد ہوگئی تھی۔اُس وقت عراق کا مشہور گائیک جوڑا سلیمہ مراد اور ناظم الغزالی مکامMakamجیسی نغمگی والی موسیقی کے ہمراہ نہ سمجھ آنے والی شاعری کو کِس دلنشین انداز میں گا رہے تھے کہ بے اختیار ہی میں ایک سرور والی کیفیت میں ڈوب رہی تھی۔
شاہراہ حیفہ جس کے ایک طرف سوق الجدید (جدید بازار) ہے وہیں سے طلا سکوائر میں داخل ہوئے۔چھوٹی سڑک پر پڑے۔ یہ شیخ معروف ڈسٹرکٹ کا علاقہ تھا۔ غربت کے دھُول دھبّوں سے اٹا پڑا۔ریت مٹی ملے کچے راستے اورمیدان میں کاغذ اور جا بجا اُڑتے پھرتے شاپر ایک عجیب سی کسمپرسی کے احساسات کو جنم دیتے تھے۔چھوٹے بچے تھالیوں میں رکھی کھجوریں بیچ رہے تھے۔ایک تو صحرائی علاقے کا دھُوپ میں اُداسی کی جھلکیاں مارتا تاثر، اوپر سے غربت کا تڑکا،دل پریشان کیوں نہ ہوتا۔
بغداد تو اُن وقتوں کا پیرس تھا جب اُس ہارون کا ڈنکا بجتا تھا۔اس کے عالیشان محلوں میں رہنے والی وہ ملکہ کہ نام جس کا زبیدہ تھا اس وقت کیسے اُجڑے پُجڑے شہر کی زینت بنی ہوئی ہے۔
کبھی یہاں کے دن اور راتیں جاہ و چشمت والی ہوں گی۔خلیفہ منصور کے بیٹے کے نام پر یہ جگہ جب زبیدہ کے نام الاٹ ہوئی تو اس نے یہاں محل بنایا تھا۔جس میں اُسکے ملازم رہتے تھے۔زبیدیہ بہت بارونق علاقہ تھا۔
سیاہ بُرقعہ نما عباؤں میں ملبوس تین عورتیں اور چند بچے پاس آ کھڑے ہوئے تھے۔اُس وقت ایک عجیب سی بات ہوئی۔دو پڑھے لکھے لڑکے بھی وہاں آگئے تھے۔جنہوں نے انگریزی میں بتایا تھا کہ یہ تو زمّرد خاتون کا مقبرہ ہے۔
زمرّد خاتون کون تھی؟میں نے اُنکی طرف دیکھا۔ایک نے تو ہنستے ہوئے دانت دکھا دئیے دوسرے نے تھوڑا سا بتایا کہ خلیفہ المصتعدی بہ امر اللہAL.MUSTADHI Bi Amr illa کی بیوی تھی۔
یہ نقش و نگاری سے سجی ہشت پہلو عمارت کے عین وسط میں بنے مینارکے ساتھ منفرد سی نظر آئی تھی۔ پستہ قامت سنگ مرمر کی قبروں کے درمیان یہ مقبرہ کسی پھول کی طرح کھلا نظرآتا تھا۔ بعد میں افلاق سے معلوم ہوا کہ سلجوقی سٹائل ہے۔اب میں وہاں کھڑی پوچھتی ہوں کہ پھر وہ بغداد کی نور جہاں کہاں ہے؟”کاظمیہ کے قریش قبرستان میں۔“
تو بھئی اب وہ کہیں بھی ہو وہاں جانا تو لازمی تھا۔پر جانے سے قبل میں نے زمرّد خاتون کے اِس مقبرے کو بغور دیکھا۔مقبرہ بند تھا۔کھجور کے درخت بھی کیسے بے نیاز سے ہیں۔اپنی چھاؤں سے کِسی کو مستفید نہیں ہونے دیتے۔
تپتا میدان اور اس میں ٹپکتی ویرانی اپنے عروج پر تھی۔پاس گنبد کے بغیر ایک چوکور عمارت اور تھی اس کے سامنے زیتون کے چھدرے سے درخت کے پاس کھڑے ہو کر میں نے فاتحہ پڑھی اور بھاگی۔
اور جب سعدی مجھے حُرّیہ کے قدیم راؤنڈ سٹی میں گھُمار ہا تھااور میں کھڑکی سے باہرمنظروں کو دیکھتی لُطف اٹھاتے کہے چلی جارہی تھی۔
”ارے یہ تو بالکل اپنے دیس جیسا ہے۔دستی چوبی ریڑھیاں اور گدھا گاڑیاں سامان کی ڈھویا ڈھائی میں مصروف سڑک کو تنگ کرتی تھیں۔بچ بچا کر راستہ بنتا تھا۔
سعدی افلاق کا ساتھی باتوں کا شہنشاہ تھا۔موبائل پر افلاق سے بات کی تو اُس نے ڈانٹ پلائی”ارے احمق وہیں پاس ہی اہلِ قریش کا قبرستان ہے۔
میں نے خود کو پھٹکارہ”لو تم کیا چُھنّی کاکی بنی بیٹھی ہو۔وہ بغدادی ہوتے ہوئے بھی پاگل سا ہے تو تم خود ہوشیار ہوجاؤ۔گاڑی سے نکلی۔زبان کا بھی مسلہ تھا مگرمیرے ٹامک ٹوئیاں مارنے سے پہلے ہی اُس نے مجھے گاڑی میں بٹھاتے ہوئے کہا۔
”یہ بھی تو جگہوں کونئے نئے نام دینے لگ جاتے ہیں۔ہم تو اِسے زبیدیہ کہتے ہیں۔“
تو میں قریش قبرستان یا زبیدیہ جاتی ہوں۔تاریخ کی یہ دونوں نامور خواتین جن کے بارے میں بلامبالغہ کہا جائے کہ دنیا کے دو عظیم حکمرانوں کے پیچھے دو عظیم عورتیں تھیں تو غلط نہ گا۔اِن دونوں شخصیتوں میں کتنی بہت سی باتوں کی مماثلث تھی۔زبیدہ اگر امین کی خلافت کیلئے مری جاتی تھی تو وہیں نوجہان لاڈلی بیگم کو شہزادہ خرّم سے بیاہنے کو کہ جانتی تھی کہ تاج و تخت کا وارث اُسے ہی ہونا ہے۔تو دونوں کا انجام کیسا المناک تھا؟
تو یہ بھی ویسا ہی مقبرہ تھا اور پورا قبرستان وقت کے پھنّے خان قسم کی شخصیتوں سے بھرا پڑا تھا۔کہیں کہیں کجھور کے درخت تھے اور کہیں خودرو جھاڑیاں تھیں اور قبریں دھوپ میں جلتی تھیں۔
مقبرے کی محرابی دروازوں والی راہداریاں اپنی مخصو ص ساخت لئیے ایک دوسرے میں کُھلتی تھیں۔دیواروں پر کیا گیا پینٹ جانے کب کا تھاکہ ٹکڑیاں گرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔شاید انہیں معلوم ہی نہ تھاکہ بغداد ایک بار پھر ڈھے گیا ہے۔جیسا یہاں سونے والی کے زمانے میں ڈھا تھا۔
فاتحہ پڑھ کر یہ شعر پڑھتی باہر آگئی تھی۔
برمزار ماغریباں نے چراغے نہ گُلے نے پرے پروانہ سوزدنے صدائے بُلبلے
امام غزالی سے ملنے کیلئے بھی میری جان نکلی جارہی تھی۔
گیلانیہ محلّے میں اُس عالم دین، قانون، تعلیم اور بچوں کی نفسیات کا ماہراور مفکّر تصوف جس کا نام امام غزالی ہے کے مزار کو دیکھنے کیلئے جن گلی کوچوں میں سے گاڑی کو گزرنا پڑااُن سڑکوں،اُن مکانوں کی زبوں حالی کچھ ویسی ہی تھی جیسی میں روز دیکھتی اور کڑھتی تھی۔
ماحول پر پھیلے سناٹے اور دھوپ کے کوفت بھرے احساس کا پَر تو دل میں عجیب سے جذبات ابھارتا تھا۔
ویرانی سے بھرے ایک کشادہ احاطے میں وہ عظیم ہستی دفن ہے۔جس کے کچے صحن میں چھوٹے سے بنے پختہ راستے پر چلتے ہوئے میں ان کے مزار میں داخل ہوئی۔مرکزی دروازے پر نیلے پتھر پر سفید حروف میں مرقد الامام محمد بن محمد الغزالی لکھا ہوا تھا۔جالیدار تعویز خاصا اونچا تھا۔نچلا حصّہ بند اور اوپر والا کھلا تھا۔فاتحہ پڑھی اور اُن دنوں کو یاد کیا جب میں ٹیچرز ٹرنینگ میں امام غزالی اور ابن خلدون کو پڑھتی تھی اور ان کے مقابلے کرتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply