میڈ ان چائنہ ہیرو ز۔۔۔۔علی اختر

میں جس بلڈنگ کا رہائشی ہوں وہاں پچھلے ہفتے چوری کی ایک واردات ہوئی   ۔۔ہوا کچھ یوں  کہ  چوتھے فلور پر موجود ایک فلیٹ سے ایک بیگ غائب ہو گیا ۔بیگ اس فلیٹ میں رہنے والی ایک عورت کا تھا جو کسی نجی بینک میں ملازمت کرتی تھی اور اس میں بینک کی کچھ چابیاں بھی موجود تھیں چنانچہ ایف آئی آر کٹوانا لازمی تھا ۔ سو لوگ پولیس سٹیشن پہنچے اور پرچہ کٹوا دیا۔اگلے ہی روز پتا چلا کہ  اس بیگ میں موجود ایک ٹیبلٹ پی سی بیچتے ایک لڑکے کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے ۔ وہ لڑکا انہی فلیٹ والوں کے پاس ملازم تھا اور آنکھ بچا کر بیگ چرا کر  لے   گیا تھا ۔

اب تک تو سب نارمل تھا ۔ لیکن اصل کہانی اسکے بعد شروع ہوتی ہے۔ اگلے ہی روز ایک موبائل بلڈنگ کے سامنے آکر رکی اور کچھ پولیس اہلکار ایک آدمی کو سر پر تولیہ لپیٹے اندر داخل ہوئے ۔ گیٹ پر موجود تین چوکیداروں میں سے ایک کی شناخت کرائی  اور اس چوکیدار کو بغیر کوئی  بات کیے ساتھ لے گئے ۔

یہاں میں یہ بتا دوں کہ  گرفتار چوکیدار کوہستان سے تین چار ماہ پہلے ہی کراچی آیا تھا اور اپنے ایک کزن کے ریفرینس سے نوکری پر رکھا گیا تھا۔ یہ اردو بھی صحیح سے نہیں جانتا تھا ۔ بہت غریب گھر سے تعلق رکھتا تھا اور گاڑیاں صاف کرکے اور گھروں میں پینے کا پانی پہنچا کر اضافی آمدنی اپنے بوڑھے ماں باپ کو بھیجتا تھا۔ جن کا وہ واحد کفیل تھا۔

رات کو جب بلڈنگ کے لوگ جمع ہوئے تو اس چوکیدار    کو بھی  گرفتاری کا   علم ہوا ۔ کچھ خدا ترس لوگوں کو فکر بھی کوئی  کہ  اس چوکیدار کے ماں باپ کا کیا ہوگا ۔ علاقہ کے تھانے پہنچے تو وہاں موجود عملے نے لاعلمی کا اظہار کیا اور یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ  اس نام کا کوئی  آدمی تھانے میں لایا بھی گیا ہے۔

پھر ایک وکیل کو بیچ میں ڈالنے پر اور کچھ بااثر لوگوں کی سفارش پر وہ مان تو گئے پر کہنے لگے کہ  اس کا نام ایف آئی آر میں ڈالا جا چکا ہے سو اب اسکی ضمانت عدالت سے ہوگی ۔ پھر ڈرایا کہ  اسکا نام تو ایک اور کیس میں بھی ڈالا جا سکتا ہے جس میں ڈکیتی کے دوران مرڈر بھی ہوا ہے۔ کبھی ایک فرضی ملزم کو پیش کیا جو کہنے لگا کہ  میں نے چھت کے ذریعے اس بلڈنگ میں چوری کی اور چوکیدار کو دو ہزار اور ایک موبائل دے کر ساتھ ملایا ۔

اس  ساری  ڈرامے بازی کے بعد پولیس کچھ لے دے کے چھوڑنے والی پرانی بات پر آگئی  اور پانچ لاکھ کا مطالبہ کیا ۔ بلڈنگ کے لوگوں کے بتانے پر کہ  یہ بہت غریب آدمی ہے اور یہاں اس کا گھر بار بھی نہیں تو پولیس پچاس ہزار پر آگئی  بعد ازاں منت سماجت کے بعد پچیس ہزار آخری دام بولا ۔ لوگوں نے آپس میں چندہ کر کے یہ رقم انہیں دی تو اس بندے  کو چھوڑ دیا گیا ۔  وہ بھی  اس طرح کے جہاں سے اٹھایا گیا تھا وہیں موبائل چھوڑنے آئی  اور شک کی بنیاد پر پوچھ گچھ کے لیے  بلانے کا تاثر دیا۔

چوکیدار کے بیان کے مطابق اس چور کو اس نے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اور حالات سے نظر بھی یہی آتا ہے کیونکہ چوری تو گھر میں موجود آدمی نے کی تھی تو چوکیدار کو ساتھ ملانے کا جواز بھی نہیں بنتا ۔

رہائی  کے فوراً  بعد اس  چوکیدار کو واپس کوہستان کی بس میں بٹھا دیا گیا تاکہ دوبارہ پولیس کی جانب سے کوئی  حرکت نہ ہو ۔ تو اس طرح ایک آدمی جو روزگار کی تلاش میں کراچی آیا تھا ۔ پولیس گردی کا شکار ہو کر واپس اپنے آبائی علاقے روانہ ہو گیا۔ویسے جن لوگوں کو تجربہ ہے یہ جانتے ہیں کہ  مذکورہ بالا واقعہ ایک معمول کا واقعہ  ہے ورنہ پولیس تو جعلی مقابلے میں مار کر اپنے کندھوں پر میڈل بڑھانے میں بھی نہیں ہچکچاتی۔

اس واقعے کے دو دن بعد ہی چائنیز قونصلیٹ پر حملے  کا واقعہ  ہو گیا اور پولیس کے دو بہادر سپاہیوں نے جان کا نذرانہ دے کر وہ حملہ ناکام بنا دیا ۔ ساتھ ہی سہائی  عزیز صاحبہ نام کی ایک ہیروئن بھی دریافت ہو گئیں  جو نائن ایم ایم ہاتھ میں تھامے آپریشن لیڈ کرتی نظر آئیں اور بہادری کی اعلی مثال قائم کردی ۔

مجھے ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے جب سندھ پولیس جیسے عوام دشمن، کرپٹ ، افسوسناک حد تک بیغیرتی و بے شرمی پر آمادہ ادارے کے کسی افسر کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔کیا ان افسران کو نہیں پتا کہ  چوک پر موٹر سائیکل سوار کو روک کر جب پولیس والا پچاس روپے چائے کے مانگتا ہے تو اپنے پورے محکمے کی  تذلیل کرا دیتا ہے۔

دوسری جانب میڈیا کو بھی مصالحہ نیوز کی ضرورت ہوتی ہے سو وہ بھی اسی طرح میڈ ان چائنہ ہیرو ، ہیروئن تراشتے رہتے ہیں ۔ ارے بھائی  کیا ان افسران کے علم میں نہیں کہ  انکے ڈپارٹمنٹ کے لوگ اپنی حرکتوں کی وجہ سے آج اس مقام پر ہیں کہ  میں وہ الفاظ یہاں نقل ہی نہیں کر سکتا جو انکے بارے میں استعمال کیئے جاتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری حد یہ ہے کہ  اس وقت بھی جب میں ایک ہوٹل پر بیٹھا کالم لکھ رہا ہوں میرے سامنے ایک پولیس موبائل میں پولیس اہلکار اسی ہوٹل سے مفت کی چائے پی رہے ہیں ۔ اب اور کیا کہہ سکتا ہوں اس سے زیاد  بے اعتباری کا مقام کیا ہوگا کہ  میں نے ایک بات خود دیکھا کہ  عوام نے ڈاکو کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا کہ  رینجرز کو دینگے تمہیں دینا اور ڈاکو چھوڑنا برابر ہے۔سہائی  عزیز اور اس جیسے تمام میڈ ان چائنہ ہیروز کو میں اس وقت اوریجنل ہیرو سمجھونگا جب وہ عوام کے دلوں میں اس عزت کو بحال کریں جو ان کا ڈیپارٹمنٹ کب کا  کھو چکا ۔ جب لوگ پولیس کو سچ مچ محافظ سمجھیں گے بصورت دیگر آپ قائد اعظم ایوارڈ کے لیے  انہیں نامزد کرکے اس ایوارڈ کی توہین کریں گے اور کچھ نہیں ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply