ماں۔۔۔ رابعہ الرَبّاء

ماں میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی
مجھے تم نے ایک لڑکی پیدا کیا
ایک لڑکی سمجھا
ایک لڑکی سمجھایا
ایک لڑکی ایک گالی
ایک لڑکی ایک شرمندگی
اک کالک۔۔
جو چودہ سو برس قبل میرے پیدا ہونے پہ منہ پہ ملی جاتی تھی
کئی  مذاہب آئے،
مگر۔۔
کوئی  نہ  بدلا
ماں میں تجھے کیسے معاف کروں
تو نے مجھے اک عورت جنا
تو نے میرے پیدا ہوتے ہی اپنا منہ چھپا لیا
کہ
تو اس خاندان کو وارث نہ  دے سکی
وارث نہ  دینے سے زیادہ غم تجھے یہ تھا
کہ
تیرے قدم اس نئے خاندان میں کیسے جم پائیں گے
کیسے تو یہاں فرعونی حکمرانی کر سکے گی
کیسے تیرے غرور کو تسکین ملے گی
کیسے تیری جوتی کی نوک پہ سماج آئے
ماں
تیرے یہ غم اس  سے زیادہ تھے
ماں
میں تجھے کیسے معاف کروں گی
جب میری زندگی کا اک اک سانس نکیل کی طرح آج بھی تیرے ہاتھ میں ہے
میرے پیر میں پائل کی زنجیر تو ہے
مگر
اس کی چابیاں تو نے اپنے وارثوں کو دے رکھی ہیں
ماں
میری آنکھ کے آنسو
میرے دماغ کی خرابی ہیں
ماں
میرے دل کے آبلے تیرے وارثوں کی شہزادیوں کے طنز کی سنگ سازی ہے
مگر
ماں
وہ سب بھی اب ، تیرے وارثوں کے وارث کی فرعونی طاقت کے غرور میں تیری ہی طرح کسی  ذی روح کا قتل کر رہی ہیں
مگر
ماں یہ تو ان کا حق ہے
کیونکہ
یہی تیرا حق بھی تھا
ماں
میرے کچھ سوال ہیں
ماں مجھے پتا ہے
ان کے جواب نہیں ہوتے
لڑکی کے سوالوں کے جواب نہیں ہوتے
ماں
کیا تیرے پیڑوں کے نیچے جو جنت ہے وہ صرف وارثوں کی ہے؟
ماں
میری جوانی سے مشقت لے کر تو نے جو سکھ پائے ہیں ، کیا وارثوں کی جوانی سے بھی یوں کھیلا ہے ؟
ماں
میرے خواب خاک میں ملا کر تو نے جو تربیت کی ہے، ان سے میری لڑکی مر گئی  ہے
اب کوئی  اس کو پیار کیسے کرے؟
ماں
تیرے وارث اپنی من کی جنت دوزخ میں بھی سجاسکتے تھے

مجھے زمین پہ بھی یہ حق کیوں نہیں ملا؟
ماں
ماں تیرے غرور کی اگر اپنی زندگی تھی
تو
میری زندگی کو بھی تو میری کہانی کی تلاش تھی
ماں اب بتا
میں
اس وقتِ نزع
اپنی کہانی کہاں پڑھوں، کہاں لکھوں
ماں
اور تو اس لمحے کہتی ہے سب قصور میرے ہیں
کیونکہ
جوانی کی فرعونیت میں طاقت نہیں رہی
ماں
نہ  زندگی دی تو نے ،نہ  سانس دیا تونے، نہ  حوصلہ دیا تو نے
ماں
میرے جسم کو بچپن کے فقط وہ نیل یاد ہیں ،
جب تو کمرے میں لے جا کر نیل و نیل کر دیتی تھی
اور کہتی تھی
جان سے مار دوں گی
جو باپ کو کچھ بتایا تو
ماں
مجھے آج بھی ان نیلوں کا درد دل میں ہوتا ہے
مگر میں نے بابا کو نہیں بتایا،
ماں
تو نے مجھے ڈر دیئے ہیں
ماں تو نے مجھے خوف دئیے ہیں
ماں
مجھے تو رنگ دار کپڑے پہننے نہیں دیتی تھی
یا د ہے ناں ماں
تجھے یاد ہے ناں
ماں
کبھی سوچنا
ان جاہل قوموں پہ
ان کی قدر و منزلت پہ
جو پیدا ہوتے ہی
اپنی بیٹی دفن کر دیتے تھے
ماں
بات بہت سادہ سی ہے
تیری زندگی اگر تیری تھی
میری زندگی بھی میری تھی
مجھے غلام بنا کر تجھے کیا ملا؟
سوائے تیرے غرور کی تسکین کے
سوائے میرے باپ کی تکلیف کے
بس تیری جوانی کا یہی غرور تھا

Advertisements
julia rana solicitors

ماں
تیری ماں نے تجھے غلام بنایا ہوتا
تو
آج میں ایک آزاد خود مختار انسان ہوتی ،
مگر
تیرے آزاد غرور نے میری ہستی فنا کر کے دم لیا
مجھے کبھی جنت کی ہوا نہیں آئی
میری زندگی پل بھر بھی نہیں مسکرائی
ماں
کبھی سوچنا
میں ایک انسان تھی
ماں
کبھی سوچنا
میرا باپ تو ایسا نہیں تھا
وہ تو شاہ تھا ، سوچ کا بلندیوں کا شاہ ، کردار کا شاہ،.
اس کی بادشاہت کی کہانی اس کے جنازے پہ رقصاں تھی
فرشتے اترے تھے زمین پہ
قبر میں اتارنے
برگزیدہ ہستیاں آئیں تھیں زمین کو سنوارنے
قبرستان کے پڑوسیوں نے استقبال کیا تھا
نجانے کس کس نے کیا کیا منصب سنبھال لیا تھا
ماں
تو نے اس سے بھی شاہی نہیں سیکھی
ماں
کیا تو اس کو ہرانے آئی  تھی
مگر ماں ایسا ہوتا نہیں ہے
ہرانے والے بھی بلآخر ہار ہی جاتے ہیں
ہم فانی و مکافاتی کے مسافر ہیں
جوانی حسن دولت طاقت سب کافر ہیں
اور
سنا
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply