“بات لامحالہ عورت اور مرد کی باہمی جسمانی کشش سے ہی شروع ہوتی ہے لیکن، بسا اوقات، اس میں جب ہجر اور فراق کی کسک شامل ہو جاتی ہے تو روحانیت کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔
ہوتا کچھ یوں ہے کہ، جسموں کی باہمی کشش کو جدائی کی بےپناہ آنچ جب شدید مہمیز لگاتی ہے تو متاثرہ روحیں جسموں کے پنجر سے آزاد ہو کر یکایک آسمانوں اور صحراؤں کے لامتناعی سفر پر رواں ہوجاتی ہیں، جہاں آنسو اور روشنی کے عجیب و غریب سرچشمے انکو سرِ راہ ملتے ہیں اور سیراب کرتے جاتے ہیں۔۔
یہ سفر بظاہر تو درد کا دکھائی دیتا ہے مگر اس درد کی پرواز بڑی بلند ہوتی ہے، اتنی بلند کہ اسی تڑپ ہی تڑپ میں یہ دیوانے اپنے رب یا پھر عشِق حقیقی تک جا پہنچتے ہیں اور آسمان کے اندر آسمان ہو جاتے ہیں۔
یہی جدائی اور فراق کا نغمہ وہ اصل رس ہے جس نے ایک حساس سی لڑکی ہیر کو مائی ہیر بنا ڈالا اور اسکے حسُن کی کشش میں مبتلا ایک لاابالی سے نوجوان دھیدو کو میاں رانجھا، پیر وارث شاہ نے تو خیر اپنی اور بھاگ بھری کی وارداتِ عشق و جسم ان دو آسمانی سفر پر رواں ہو جانے والے سچے عشاق کے قالب پر مڑھ کر بات کو کچھ سےکچھ ہی بنا ڈالا، مگر سچ یہ ہے کہ۔۔۔”مائی ہیر ” اور “میاں رانجھا” کی باہمی جسمانی کشش کو ہجر اور جدائی نے لاٹ دے کر منور کر ڈالا تھا اور انہوں نے جسم کی محدود لذت سے کہیں دور، بہت اوپر اٹھ کر، روحانی لذت کے لامحدود رس کو چکھ لیا تھا۔
مائی مرشد اور میاں مرید کے پیکر میں ڈھل کر روشنی کی ایک نئی کہکشاں میں جا اُترے تھے۔
Facebook Comments