طلسماتی سوچ کے نئے پہلو(1)۔۔۔شکیل طلعت

میں ایک لمبے عرصے سے انسانی نفسیات کا طالبعلم ہوں۔ جتنی کتب ، جتنی تھیوریز نفسیات کے متعلق ہوتی ہیں میں گاہے بہ گاہے پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر اس کے اثرات معاشرے پر دیکھتا ہوں، لوگوں کی زندگیوں پر لگی ہزاروں ایسی مہریں دیکھتا ہوں جن کا ان کی موجودہ زندگی سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ سب کچھ من و عن وہی دہرا رہے ہیں جو ان سے پہلے لوگ دہراتے رہے اور جو اُن کے اردگرد دہرایا جا رہا ہے۔ لکیر کے فقیر ، بھیڑیں ، جنہوں نے کبھی اپنے دماغ کا استعمال نہیں کرنا۔ کچھ عرصہ سے میں ورد ، وظائف، منتر اور تسبیحات وغیرہ کی سائنس پر غور کر رہا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہوئی کہ لوگ بِنا  سوال اٹھائے ایک چیز کو لے کر طوطے کی طرح رَٹ رہے ہوتے ہیں ، نہ انہیں اس کلام کے مطلب سے سروکار نہ اس کلام کا (ترجمہ) ان کی مشکلات سے کچھ لینا دینا ، اب آپ کہیں گے کہ اس میں سائنس کیا ہے ؟ سائنس تو سادہ ہے بھئی ۔۔۔ بندے کی طلب ، جتنی بڑی ہوگی اتنی جلدی ہر وظیفہ ، ہر کلمہ ، ہر منتر ، ہر جَاپ اور ہر تسبیح اس کے لیے مقصد کا حصول ممکن بنا دے گی۔ ہاں یہ سب تسبیحات صرف دھیان لگانے میں مدد دیتی ہیں (کام پیچھے مائنڈ سائنس کرتی ہے) یا اندھی عقیدت ، جسے انگریزی میں blind faithکہا جاتا ہے اور دوسرا شدت ِ جذبات کی، مقصد کو حاصل کرنے کی۔

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ تسبیحات بتانے والے عامل ، پیر، ولی یا گرو ٹائپ لوگ خود بھی جانتے ہیں اس سائنس کو ؟؟ تو اس کا جواب ہے بالکل نہیں۔ اکثر پیر، ولی، یوگی، گرو ، یہ سب معاشرے کے ذہین لوگ ہوتے ہیں ، اس لئے معاشرے میں رائج چیزوں سے جلدی نتائج نکال لیتے ہیں اور پھر عوام کو وہ پھکی دیتے ہیں جس سے ان کے دائمی امراض کا علاج ہوتا ہے۔ مگر پوری بات ہرگز بیان نہیں کرتے ، دو وجوہات کی بنیاد پر ، ایک یہ کہ انہیں خود پتہ نہیں ہوتا ، دوسرا یہ کہ ان کی اپنی ذات کو خطرہ ہوتا ہے ، اس لئے وہ عوام کو صرف اپنے تک محدود رکھتے ہیں اور وقتی فوائد سے صرف اتنا مستفید کرتے ہیں کہ لوگ بار بار ان سے رجوع کرتے رہیں۔ یہ لوگ اتنے شاطر ہوتے ہیں کہ ایک دم سے پرانی سب چیزوں کو ریجیکٹ نہیں کر تے ، انہیں اپنی بساط کا پتہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی بڑی تبدیلی یا انقلاب نہیں لا سکتے، اس لئے وہ معاشرے میں رائج ساری چیزوں کو اپنے نام سے الگ شناخت دے کر ، اور اس فیلڈ کے پرانے لوگوں کو اپنا راہبر بتا کر اقتدار حاصل کرنے یا ساری قوم پر غلبہ پانے کے لئے اپنا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ پھر ان کی مدد باقی مفاد پرست کرتے ہیں۔ اور یوں کوئی بھی تحریک ، کوئی بھی مذہب، کوئی بھی نظریہ سیاست کی نذر ہو جاتاہے۔

اب پھر آجاتے ہیں موضوع پر ، کہ انسانی نفسیات ہے کیا ،جو سراسر شعوری پیچیدگی ہے ؟ اس کا جواب سادہ سا ہے اگر دو لفظوں میں بیان کیا جائے تو”خوف اور لالچ ” انسانی وجود کے بنیادی محرکات ہیں ۔ ہر مذہب، ہر نظریہ اور ہر تحریک انہی دو محرکات کو مد نظر رکھ کر شروع کیے جاتے ہیں۔ اب چونکہ معاشرے کو یہ دو محرکات ہی اپنے تابع کیے ہوئے ہیں ، اس لئے اجر و ثواب، سزا ، یہ سب کا تعارف کروایا جاتا ہے ، یہ ایک بہت لمبا موضوع ہے، مختصراَ َیہ کہ اس میں سب سے کم جس چیز کی وقعت ہوتی ہے وہ انسانی جان ہے۔ جسم کو، دماغ کو اور اپنی باقی صلاحیتوں کو جتنا زیادہ کوئی آدمی دبائے گا حتی کہ اپنی ذات کو جتنا زیادہ ذلیل کرے گا، مذہب اور اہل مذہب کے نزدیک اسے اتنا عظیم سمجھا جائے گا۔ حالانکہ میرے نزدیک انسانیت کی توہین اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے؟

یہ سب لوگ ، انہیں غور سے دیکھیں ، ان کی زندگیوں کی جھلک ایک بار ملاحظہ کریں، یہ وقت کے دھتکارے ہوئے لوگ ، یہ ازلی پِدے ، جن کا عقل و شعور سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ کیسے اپنی موجودہ زندگیوں کی بے وقعتی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اپنی ذات میں جن کی  حیثیت ایک ’’پانڈی‘‘ یعنی سامان ڈھونے والے سے بڑھ کر نہیں ، بلکہ میں تو کہتا ہوں اس سے بھی کمتر ہے ، کیونکہ پانڈی تو پھر کوئی اجرت وصول کر لیتا ہے ، یہ کس چکر میں بوجھ ڈھو رہے ہیں ؟۔ جو دوسروں کے نظریات ، ان کے وِچاروں کی گٹھڑی اٹھا کر بھی خود کو ہلکان محسوس نہیں کرتے بلکہ طوقِ غلامی اپنے گلے میں ڈال کر نجانے کن دیوتاؤں کو خوش کرنے کے چکر میں ہیں ۔ میں آج بھی لوگوں کو بھوک وپیاس سے نڈھال دیکھتا ہوں، چہرے اترے ہوئے مگر وہ نہ پانی پی سکتے ہیں نہ مقررہ وقت سے پہلے کچھ کھا سکتے ہیں ، دیکھ کر سوچتا ہوں وقت کتنا بڑا ظالم ہے ، انسان اناج، آسائشوں اور شعور و فہم کی فراوانی کے موسموں میں بھی اپنے پرکھوں کی ان رسومات پر سوال نہیں اٹھا سکتا ، جس کے تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کرہ ارض پر انسانی زندگی۔ زندگی کےآغاز میں شعور اپنے ابتدائی مراحل میں تھا اور حالات بہت سخت تھے۔ پھر انسان میں خوف کا دائمی جذبہ ازلوں سے موجود ہے تو بلاؤں کو ٹالنے کے لئے دیوتاؤں کو اپنے بچوں تک کی بھینٹ چڑھا دیا کرتا تھا ، پھر انسان نے اپنے شعور سے ایک ایک کرکے بلاؤں کو شکست دی اور ہر دیوتا ، ہر خوف سے بے نیاز ہوتا گیا۔ افسوس وقت بدل گیا مگر ذہنی معذوروں کے درمیان بھینٹ چڑھانا ابھی تک رائج ہے۔ خواہش کو قربان کرنے سے بڑی کوئی قربانی ، کوئی بھینٹ ہوگی زندگی میں ؟

خواہش پیدا ہونا زندگی کی علامت ہے اور اسے پورا کرنا زندگی کی تکمیل ہے اور انتہائی نیچرل ہے ،خواہش ترک کرنا یا اس کے خلاف کوئی عمل کرنا UN-Natural یا غیر قدرتی عمل ہے۔ جب آپ ایک خواہش کو پورا کرنے کی بجائے اسے دبا یا نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں تو آپ قدرتی قوانین ، جسے میں Infinite Intelligence یا Source Energy کہتا ہوں ، عرف عام میں جسے خدا کہتے ہیں ، اس کو پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ آپ میں قابلیت نہیں کہ اس خواہش کو پورا کرسکیں۔

ان خواہشات میں سے کچھ کو (وہ بھی لازمی نہیں کہ پوری ہوں) ، پورا کرنے کے لئے ورد وظائف ، منتر یا تسبیحات متعارف کروائی گئی ہیں جن کو کسی دن فراغت میں سمیٹیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

شکیل طلعت
سوچ کے کھڑے (ٹھہرے ہوئے) پانی میں کنکر مارنا میرا مشغلہ ھے اور کچھ نہیں تو اس کا ارتعاش اہلِ نظر اور بلند عزم کے حامل لوگوں تک ضرور جائے گا اور وہ ان پہلوؤں پر ضرور سوچنے پر مجبور ہوں گے جن کا تذکرہ لوگوں نے اپنی روزمرہ گفتگو میں ممنوع کر رکھا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply