جلا وطن /ناصر خان ناصر

حسن ابدال کی معطر خنک ہوائیں جب یاد آتی ہیں تو ہمارے دلِ مضطرب پر اک چوٹ سی پڑتی ہے۔ لالہ رخ کا مقبرہ ( جن کے بارے میں اسی تربت نما مقبرے پر ایک تختی لگی تھی۔ اس تختی کے مطابق وہ محترمہ کسی مغل شہنشاہ کی دلنواز خوبرو بیگم تھیں۔ کابل جاتے ہوئے بیماری کے سبب جان آفریں سپردِ خاک ہوئی ۔ انگریزوں نے اس مقبرے کا ایکس رے کروا کر معلوم کیا تھا کہ وہاں کسی پری پیکر یا دفینے کی بجائے کوئی  پیرِ فرتوت دفن تھا۔) جس کے نام سے ہی گھنٹیاں سی کانوں میں بجنے لگتی ہیں اور یادوں کے ویران رستے پر محمل سجائے سبک رو چلتے، دھول اڑاتے کارواں کی فلم آنکھوں میں پھرنے لگتی ہے۔۔۔

قریبی قدیم مغل پریڈ کے واہ گارڈنز، جن کے سرو کے تراشے ہوئے خوبصورت درخت صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی حسن و عشق کی انوکھی داستانیں بیاں کرتے ہیں۔ اس سے آگے ٹیکسلا کے بکھرے ہوئے ان سے بھی مزید پرانے کھنڈرات، جولیاں یونیورسٹی کے منے منے سے کمرے جن میں انسان پاوں پسار کر سو بھی نہ پائے۔ انھیں دیکھ کر ہمیشہ اس دکھ، احساس کمتری، جبر اور قید کا احساس ہوا جن میں مبتلا رکھ کر آج بھی نئ نسلوں کو جبرا الجبرا پڑھایا جاتا ہے۔

راہ میں کرنل نیلسن کی یادگار کا اونچا برج جو ہمیشہ خون آشام چمگادڑوں سے اٹا ٹوٹ بھرا ہوا ہی ملتا تھا۔وہیں پر ہی شیر شاہ سوری کی بنائی  گئی  جرنیلی سڑک کی باقیات زمین پر لیٹی گویا آخری سانسیں بھر رہی تھیں۔ یہ اس دیمک لگی تاریخی کتاب کا ایک خاکستر ہوتا جھڑتا بوسیدہ سا ورق تھا جس پر فاتح اپنے اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اسے روندتے چلے گئے تھے۔
یہ دھرتی کتنی زخمی ہے؟
اس کی آخری چیخ و پکار بھی کسی نے سنی؟
آج بھی مادر وطن کو برہنہ کر کے اس کا خون چوسا جاتا ہے اور کھلے عام اس کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ اسے اور اس کے باسیوں کے سارے مفادات کو مٹی کے بھاو بیچ کر بیرون ملک ذاتی جزیرے خرید لیے جاتے ہیں اور کوئی سوال پوچھنے والا نہیں ملتا۔
ورق ورق ہوتی یاداشت کو پیچھے موڑنے پر مجبور کر دیجیے تو حسن ابدال کی اونچی پہاڑی کے پیچھے ڈوبتے سورج کا نظاره کیجیے۔

روایات کے مطابق پہاڑی پر رہائش پذیر ابدال صاحب اور پہاڑی کے دامن میں براجمان گرو نانک جی ایک پانی کے چشمے کی بنا پر آپس میں الجھ پڑے۔ اس انوکھی چشمک میں واہ گرو کی کرپا اور گرو جی کی ڈنڈوت و شکتی کی بنا پر جب وہ حکم دیتے تو یہ پانی کا چشمہ پہاڑی سے اتر کر دامن میں بہنے لگتا۔ ادھر پہنچے ہوئے بزرگ اللہ تعالی سے دعا فرماتے تو وہ چشمہ پھر پہاڑ کی چوٹی سے رواں ہو جاتا۔ سات دنوں کی باہمی چپقلش اور جھنجلاہٹ سے تنگ آ کر ایک دن اس بزرگ ولی نے اپنی جنبش نگاہ سے ایک پہاڑی چٹان کو نیچے مراقبہ کرتے گرو جی پر گرا دیا کہ سارا قصہ ہی تمام ہو۔ گرو جی نے اپنا ہاتھ بلند کر کے وہ پتھر تھام لیا۔ وہی پتھر آج بھی اسی رواں چشمے میں دیکھا جا سکتا ہے جو گردوارہ پنجہ صاحب کی وجہِ تسمیہ بھی ہے۔ گردوارے پر متعین لمبی سفید داڑھی والے محترم گرنتھی بزرگوار سردار جی نے ہمیں کڑاہ پرشاد دیتے ہوئے وہ بے شمار سرخ مچھلیاں بھی دکھائی تھیں جو بقول ان کے اگر پانی سے باہر نکالی جائیں تو پانی بن جاتی ہیں۔ وہ محترم پنچ ککی تھے یعنی سکھوں کے پانچ نشان: کیس، کڑا، کرپان، کنگھا اور کچھا سے مزیں تھے، گو آخر الذکر شے دیکھنے کی ہمیں حاجت تھی نہ ضرورت۔

ہمیں کون سا پنج کلیانی گھوڑا خریدنا تھا کہ اس کے چاروں پاوں کی اور ماتھے کی سفیدی ملاحظہ کرتے یا اس کے پنج عیب کی ٹوہ لیتے جو جتر، کمری، کہنہ لنگ، منہ زور اور شب کور ہوتا ہے۔
اس مقدس گردوارے میں ہمیں گرنتھ صاحب کی زیارت کروا کر اسے کھول کر مور پنکھی کرتے ہوئے مقدس پاٹ بھی سنوایا گیا تھا۔

حسن ابدال سے اک موڑ مڑ کر ایک سڑک لارنس پور جاتی تھی جہاں کے اونی کپڑے ملک بھر میں مشہور تھے۔ اب تو شاید اس شہر کا نام بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ دوسری سڑک ہری پور ہزارہ کے سر سبز علاقے کی جانب چلی جاتی تھی۔ ہری پور کے نزدیک خان پور کے سرخ میٹھے رسیلے مالٹے باغوں میں لدے رہتے تھے۔ اسی انواح ہی میں ایوب خان صاحب کا گاؤں ریحانہ بھی تھا۔

ہم ریحانہ بہت بار جاتے رہتے تھے۔ وہاں کی خواتین غیر مردوں کو دیکھتے ہی دوسری طرف منہ کر کے کھڑی ہو جاتی تھیں اور کوئی  کلام نہیں کرتی تھیں۔ ان بے حد خوبصورت پہاڑیوں پر بے پناہ قدرتی پھول کھلے رہتے تھے۔ لوگ خوبصورت مگر اکھڑ، اکل کھرے اور سخت مزاج تھے۔ ہم اس علاقے میں دور دور تلک گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ایبٹ آباد سے آگے مانسہرہ تک کے علاقے گویا ہماری اس مملکت میں شامل تھے جو ہم اپنے ہنڈا ون ٹین پر سوار دن رات فتح کرنے میں سکندرِ اعظم کی طرح ہی جٹے رہتے تھے۔ ان دنوں ہم ہری پور ہزارہ میں شہر سے کچھ دور ٹیلی فون فیکٹری (ٹی آئی  پی) میں مقیم تھے۔ ہم اپنے نت نئے فشینوں کی بدولت ٹپ ٹاپ مارکیٹ میں جا کر ہلچل مچاتے رہتے تھے اور بقول شخصے اس چھوٹے سے قصبے کو سرخ رنگ رکھا تھا۔
ہری پور میں بھنگ قدرتی اور خود رو تھی اور ہر طرف گھاس کی طرح اگتی تھی۔ بہتے چشموں کے پانی کنارے اگی بھنگ کے جنگل میں جھنیگر، مینڈک اور دیگر حشرات پوشیدہ رہ کر نیم خوابیدہ، دن میں خواب اور خوابوں میں شاید جگنو ستارے دیکھتے رہتے تھے۔

نجانے یہ وہاں کی دلفریب آب و ہوا کی سرمستی تھی کہ ہماری اپنی سرشاری و نوجوانی کا خمار کہ ہم وہاں دن رات بس گویا کوئی نشہ سا پی کر سوئے ہی رہتے تھے۔ صرف رفعِ حاجت، نہانے دھونے، کھانا تناول کرنے کے لیے تین چار مختصر وقفوں سے اٹھتے اور کھا پی کر پھر مست الست “ڈِبری ٹائٹ” ہو جاتے۔ ہفتہ بھر ہی میں اک عجب سی گلابی ہماری آنکھوں سے چھلکنے لگی اور گالوں پر ٹوٹ کر بہہ نکلی۔
شاید یہ جوانی ہی تھی جو شفق کی طرح پھوٹ کر بہہ نکلنے کو تیار تھی۔

اس سارے شاداب علاقے نے ہماری نوخیز نوجوانی کے شگفتہ رنگین ارمانوں میں شاید کوئی  ایسا انوکھا رنگ ضرور بھرا ہوگا جو اب تک چھلکائے چھلکتا ہے، نہ کسی ندیدے کی طرح نین ڈھلکائے، ڈھلکتا ہے۔

یہ ہماری زندگی کے سب سے سنہری زمانے ہی تھے۔ عجب بے فکری، لاابالی طبعیت، سرشاری، بےخودی ہم پر ہمہ وقت طاری رہتی تھی۔ فکر نہ فاقہ، عیش کر کاکا۔
شاید اسی لیے اب تک بھی انہی مناظر کے لیے اک ننھا سا بچہ ہمارے من میں سدا سسکتا، سلگتا، بلکتا اور فریاد کناں رہتا ہے۔ ہم دنیا بھر گھومتے ہیں مگر اپنی دھرتی کو چومنے، اس خوشبو بھری سرشاری، طمانیت اور بے خودی کو پانے کے لیے بے قرار ہی رہتے ہیں جو وطن کی مٹی میں پوشیدہ ہے۔
اک بار پھر وہ دھرتی چومنے کا خواب آنکھوں میں ایسا بس گیا ہے کہ بس کچھ مت پوچھیے۔
یہ من بسا خیال، آرزو، امنگ کچھ ایسے خواب ہیں جو آنکھوں میں بس کر نکلتے ہی نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم جو اپنے وطن کی میٹھی نرالی دھرتی کو دیوانگی کی حد تک پیار کرنے والے لوگ ہیں، ہم جیسے لوگوں کو جلا وطن کر دینے میں ہی ہمارے ان تمام چوروں کی عافیت ہے جو ہمارے کسانوں غریبوں اور مزدوروں کی آنکھ کے سپنے بھی چرا لیتے ہیں اور ان کا خون چوس چوس کر باہر ممالک میں اپنے ذاتی محلات و جزیرے خرید کر لیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply