یہ کفن چوری نہیں تو اور کیا ہے ؟۔۔سید عارف مصطفیٰ

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہ الدین ایک نیک نام اور ذمہ دار شخصیت ہیں جن کے کسی نظریئے یا سوچ کے کسی زاویئے سے تو اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے کسی بیان کو یونہی افتراء پردازی قرار دے کر نظر انداز ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔

اپنے تازہ بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ سپریم کورٹ میں اس 8 ارب کی رقم کے اخراجات کے شواہد و ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ جس کے متعلق ان کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ رقم کرونا متاثرین کی امداد اور بہبود پہ خرچ کی گئی ہے ۔ موصوف سندھ حکومت کو ملنے والی 8 ارب کی امدادی رقم کے بجائے صرف 61۔1 ارب روپے ہی کا حساب دے پائے ہیں ،جو کہ اصل امدادی رقم کا محض 14 فیصد ہے گویا 86 فیصدی امدادی رقم ہڑپ لی گئی ہے ۔

ان سنگین حالات میں جبکہ کافر و ملحد کو بھی خدا یاد آرہا ہے ،ہماری سندھ حکومت کے اطوار اب بھی نہیں بدلے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ جیسے اس نے اس وباء میں بھی کمائی اور لوٹ مار کے وسیع امکانات تلاش کرلیے ہیں ، کیونکہ کرونا کے حوالے سے سب سے زیادہ پھرتی بھی صوبہ سندھ ہی کی حکومت نے دکھائی تھی، جس پہ ہر جانب سے اس کی بڑی پیٹھ تھپکی گئی تھی اور بہتیروں کو اس درجہ شدید آنیاں جانیاں   دیکھ کے خاصی حیرت ہوئی تھی اور زیادہ ناواقف و بیحد سادہ دل لوگ تو اس مستعدی سے متاثر بھی بہت ہوئے تھے ۔۔ مگر ہمارا ماننا یہ تھا کہ ،یہ پھرتیاں بے سبب نہیں عارف ،سب مال کمانے کی عیاری ہے

معاملات پہ گہری نظر رکھنے والے اہل نظر بخوبی واقف کہتے ہیں کہ برسہا برس سے انسانی زندگی کے لیےکوئی بھی مشکل صورتحال تو دراصل سندھ حکومت کے لیے کمائی کے بھرپور امکانات لیے آتی ہے ۔اور اسی لیے اس بار کرونا بحران میں گھروں میں محبوس غریب غرباء کی سرکاری امداد کے حوالے سے جو حقیقی صورتحال سامنے آئی ہے وہ تو حسب روایت بہت ہی افسوسناک ہے ،مزید یہ کہ ایک عظیم انسانی المیے کے تناظر میں تو یہ سب واردات لوٹ مار کی ایک ایسی ہوشرباء داستان ہے کہ صرف شرمناک ہی نہیں ہے بلکہ حد درجہ گھناؤنی بھی ہے ۔ ڈائن بھی سات گھر چھوڑدیتی ہے مگر یہ نجانے کس قسم کے بھوت ہیں کہ کفن کی مانگ بڑھ جائے تو کفن چوری ہی پہ اتر آئیں ۔

سوال یہ ہے کہ باقی پونے سات ارب روپے کی غائب شدہ رقم کس کھوہ کھاتے میں چلی گئی اور اس کا حساب کون لے گا ۔۔ یہ نیب اور ایف آئی اے آخر کس مرض کی دوا ہیں ؟؟ آخر اس پہ ریفرنس کب دائر ہوگا ۔۔؟‌ ویسے اس سے کہیں بڑا ایک تگڑا سا ریفرنس ماضی قریب کی اس واردات کے حوالے سے بھی بالضرور بنتا ہے کہ جب اسی سپریم کورٹ نے لاڑکانہ کے ترقیاتی کاموں میں شدید بدعنوانیوں کے حوالے سے دائر ایک مقدمے میں تحقیق کروائی تھی تو ججوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں اور چیف جسٹس نے اس رپورٹ کے بعد سخت برہم ہوکے سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل سے کہا تھا کہ سندھ حکومت 91 ارب کے اخراجات کی بجائے وہاں صرف 91 کروڑہی کا ترقیاتی کام تو ثابت کرے جو کہ وہ نہیں کرسکی تھی ،یعنی اس قدر بڑی لوٹ مار ۔۔۔ شاید دنیا کی سب سے بڑی ڈکیتی !

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ان سب “زریں خدمات”کے باوجود اگر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اپنے کاموں پہ بے پناہ داد کے متقاضی ہیں تو یہ جسارت شاید اس حسن کارکردگی کے حوالے سے ہے کہ دیکھو پہلے اگر ہم 91 ارب میں سے 91 کروڑ یعنی ایک فیصد رقم کا بھی حساب  نہیں دے پائے تھے تو اس بار تو پھر بھی ہم نے 14 فیصد کا حساب دے ڈالا ہے ۔۔۔ پھر اس شاندار و بے مثال “کارنامے” کی زبردست داد تو بنتی ہے نا ؟۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply