تقسیم کی کہانی

پاکستان میں اس وقت چار نسلیں اکٹھی ہیں۔ پہلی نسل میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان بنتے دیکھا، یہ نسل اب تقریبا اٹھ چکی۔ پورے پاکستان میں چند سو لوگ ہی اس وقت زندہ ہونگے جنہوں نے ہجرت کی اپنا گھر بار مال مویشی زمین جائیداد حتیٰ کہ بہن بھائ ماں باپ بھی کھوۓ۔ دوسری نسل وہ ہے جو پاکستان بننے کے پہلے دس سال میں پیدا ہوئی اور اب تقریباً زیادہ تر ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں پر بھی اپنے وطن کی محبت کا بھوت بری طرح سوار ہے اور یہ نسل بھی براہ راست ہجرت کے متاثرین میں شامل ہیں کیونکہ ان کے والدین بھی لٹے پٹے خالی ہاتھ پاکستان میں آۓ۔ ان لوگوں نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا مگر ان کو بھی اک اک واقعہ حادثہ ازبر ہے۔ تیسرے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو پاکستان بننے اور ٹوٹنے کے درمیان پیدا ہوۓ، ان کو پاکستان کیلئے قربانیاں دینے والوں کو براہ راست ملنے سننے کا شرف حاصل ہے۔ چوتھی نسل وہ ہے جو 85 کے بعد جہانٍ رنگ و بو میں وارد ہوۓ۔ جب وہ جوان ہوۓ شعور کے سن کو پہنچے تو ان کے نزدیک چودہ اگست بس اک تہوار رہ گیا۔ موٹرسائیکل کا سائیلنسر نکال کے لوگوں کا آرام حرام کرنا، تیز میوزک پر رات بھر تھرکنا، بس یہی یومٍ آزادی ہے۔ ان کو نہ تو اس ملک کے بنانے والوں کے دکھ اور قربانی کا ادراک ہے نہ ہی پاکستان کے ٹوٹنے کا کوئی ملال۔ بس ہر سال اگست کے پہلے چودہ دن جھنڈے جھنڈیاں لگانا، چودہ اگست کو سارا دن موٹرسائیکل دوڑانا، رات کو ڈانس اور میوزک انجواے کرنا، یہی آزادی ہے یہی یومٍ آزادی کا پیغام۔
نوجوان خون ایسا ہی ہوتا ہے، لاپرواہ اور موج مستی والا۔ مگر بزرگوں کو کیا ہوا؟ کیوں نہیں بتاتے اپنے بچوں کو، کیوں ان کو شعور نہیں دیتے کہ ملک کتنی مشکلوں کٹھنائیوں اور قربانیوں کے بعد ملا۔ اس کی بنیادوں میں مٹی پانی کا گارا نہیں انسانی خون اور جسم کا گارا استعمال ہوا۔ اس کی دیواروں میں اینٹ کی جگہ عزتیں چنی گئی ہیں۔ اسکی سرحد پر کوئی گھاس پھوس یا کانٹوں بھری جھاڑیوں کی باڑ نہیں بنائی گئی بلکہ ہمارے غیرت مند اور بہادر جوانوں کی شہادت سے باڑ بنی ہے۔ اس کا دفاع کسی پنجابی کسی سندھی بلوچ یا پٹھان کا مرہون منت نہیں بلکہ پاکستانی قوم کا کارنامہ ہے۔
اتنی لمبی تمہید اس لئے باندھی تاکہ نوجوان نسل شاید میرے ساتھ چلے۔ میں متحدہ ہندوستان کے ایک پسماندہ گاٶں کی سیر کرنے چلا ہوں۔ اب جو واقعات میں آپکے سامنے رکھوں گا وہ ایک ایسے پاکستانی کے جذبات ہونگے جو اپنا بہت کچھ گنوا کے بھی اللہ کا شکر ادا کرتا تھا کہ خسارا نہیں ہوا۔ وہ پاکستان کا سچا عاشق تھا۔ یہ داستان خونچکاں اسی کی زبانی آپ کو سناٶں گا۔ اس سے آگے داستاں اسی راوی کی کہانی اسی کی زبانی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے۔ ہم ضلع انبالہ کے ایک گاٶں میں رہتے تھے جہاں میرے دادا جی، ایک مہاراجہ کی ذاتی فوج کے سپہ سالار تھے۔ اس دور میں زیادہ تر کچے مکان ہوتے تھے مگر ہمارا مکان پکا تھا۔ اس دور کا پکا مکان بھی آج کے دور کے کچے مکان جیسا ہی ہوتا تھا ۔بس نانک شاہی اینٹوں کو چونے کے ذریعے چنا جاتا تھا ۔بہت سے لوگ غلافی مکان بناتے تھے یعنی باہر پکی اینٹیں اور اندر کی طرف کچی اینٹیں، جن پر بھوسہ ملے گارے کی لیپائی ہوتی تھی۔مکان کچا ہو یا پکا، چھت زیاده تر لکڑی کے شہتیر اور بالگیر کی بنتی جس پر کچھ لوگ لکڑی کی باریک پھٹی ڈال کے اوپر لیپ کرتے تھے۔ آج کی طرح لینٹر وغیرہ کا رواج بھی نہ تھا، شاید لوگوں کو اس کا علم بھی نہ تھا۔ ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے برابر۔ انگریزوں کے آنے کے بعد ریل تو آگئی تھی مگر ذیادہ تر لوگ گھوڑے پر یا بیل گاڑی پر سفر کرتے تھے جبکہ دس پندرہ میل کا سفر عموماً پیدل ہی کیا جاتا ۔اس وقت تقریباً سب گاٶں والے مسافروں کو ٹھہرانا باعث عزت وفخر خیال کرتے تھے ۔لوگوں نے ڈیرے بنا رکھے تھے جہاں مسافر ٹھہرتے ان کو کھانا اور ان کے جانوروں کو چارہ بخوشی دیا جاتا ۔سادہ زندگی تھی، چاۓ بیمار کو ملتی تھی، بیماری نہیں بنی تھی ۔دودھ گھی ہر گھر میں وافر ہوتا اور دودھ بیچا نہیں جاتا تھا۔ شادی غمی میں صاحب خانہ کو کسی سے کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، اتنا دودھ گھی اسکے گھر میں اکٹھا ہوتا کہ مہمانوں کو پانی کی جگہ بھی دودھ پلایا جاتا ۔کسی کے گھر کی شادی پورے گاٶں کی خوشی کا سامان بنتی اور اگر شادی لڑکی کی ہوتی تو پورے گاٶں کی عزت اور ناک کامسئلہ ہوتی۔ بارات تین چار دن روکنا رواج تو تھا ہی، گاٶں کی روایت تھی کہ بارات کے ساتھ آنے والا ہر بندہ گاٶں کے ہر فرد کا ذاتی مہمان ہوتا۔زرتار حقہ، علاقے کا بہترین تمباکو، رنگین چارپائی، ہاتھ سے کڑھائی کئے سفید غلافوں والے تکیے جو بناۓ ہی مہمانوں کیلئے جاتے تھے ۔سب کچھ گاٶں کے چند نوجوان مل کے ہر گھر سے لیتے ۔اور اس میں ہندو سکھ مسلمان کی کوئی تخصیص نہ تھی۔داماد سکھ کا ہوتا یاہندو کا، مسلمان کیلئے بھی اتنا ہی قابل احترام ہوتا جتنا وہ اپنے سسرال والوں کیلئے۔اور داماد کیلئے پروہنے کا لفظ استعمال ہوتا۔ گاٶں کی بیٹی سب کےلئے دھی بھین ہوتی اور اس میں کبھی تخصیص نہیں کی جاتی تھی کہ یہ چوہدری کی بیٹی ہے یا کمی کی، ہندو بنئیے کی ہے یا سردار جی کی۔اس وقت تک ہم نے کبھی کسی ہندو کو غیرسمجھا نہ کسی سکھ کو پرایا جانا۔ ہمارا کھانا پینا، کھیلنا کودنا، دکھ سُکھ سب سانجھے ہی تھے اور ذہن میں دور دور تک کوئی خیال نہ تھا کہ کبھی اپنا گاٶں، اپنی زمین اپنا گھر بار چھوڑ کے ہم بھی کہیں جائیں گے۔ کسی بھی نئے ملک کا یا علیحدگی کا تو تصور اور سوچ بھی نہ تھی۔ ہمیں کوئی علم نہ تھا کہ شہروں میں کیا ہورہا ہے کیا کہا جارہا ہے ۔ہمیں قائداعظم کا علم نہیں تھا، کانگریس اور مسلم لیگ کے بارے میں بھی ہماری معلومات ناقص تھیں ۔اسکی سب سے بڑی وجہ ذرائع ابلاغ کا نہ ہونا تھا اور پھر ہم لوگ ان پڑھ تھے۔ تیسرا ہم نوجوان تھے اور بے فکر۔اپنی مستی میں مگن کھانا پینا گھر کا کام کرنا جو کھیت میں چارہ کاٹنا گڈے پر گھر لانا اور جانوروں کو کھلانا ۔شوق پہلوانی اور کثرت سے شروع ہوکے اسی پر ختم ہوتا تھا۔کبڈی اور کشتی کے علاوہ تیسرے کسی کھیل میں نہ تو دلچسپی تھی نہ شوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply