اردو شاعری اور ہماری حرماں نصیبی

یوں تو ہم بچپن سے ہی بلا کے بد نصیب واقع ہوئے ہیں کہ دنیا جہان کی نعمتیں ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اہل زمین اور کاتب تقدیر کی ملی بھگت کے نتیجے میں نہایت بے دردی سے تقسیم یا نا پید کر دی گئی تھیں۔ابھی ہم طفلِ مکتب ہی تھے کہ والد محترم محکمہ پولیس کی دبنگ نوکری سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر ہمیں ان ممکنہ مراعات سے محروم کر گئے جو علاقے کے تھانیدار کے آخری چشم و چراغ کی حیثیت سے ہمارا مقدر بن سکتی تھیں۔ابھی پرائمری جماعتوں کی بھول بھلیوں سے نکلنے ہی پائے تھے کہ ہمارا گھرانہ شہر سے واپس اپنے آبائی گائوں منتقل ہوگیا جہاں ہمارے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے اتنے ہی امکانات تھے جتنے فی زمانہ سوئس بینکوں میں پڑے پاکستان کے اربوں ڈالروں کی واپسی کے ہیں۔
گائوں کے اکلوتے ہائی اسکول میں سائنس ٹیچر ہمارے میٹرک کرنے کے بعد تعینات ہوئے اور ہمارے گریجویشن کرنے سے پہلے یونین کونسل سے لے کر ڈویژن بھر تک کی تقریباًتمام ملازمت کی آسامیاں بے رحمی سے پرُ کی جا چکی تھیں۔شہر میں ہمارا ساڑھے آٹھ مرلے کا اکلوتا پلاٹ اور گائوں کی80فیصد زمین بک چکی تھی اور ہمارے بالغ ہونے سے پہلے ہی خاندان بھر کی نیک پروین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ (مڈل پاس)دو شیزائیں اپنے اپنے خاوندوں کو پیاری ہو چکی تھیں یاان کے جملہ حقوق کسی نہ کسی رقیب روسیاہ قسم کے کزن کے حق میں محفوظ ہو چکے تھے۔کاروبار کرنے کا ہم سوچ بھی نہ سکے کہ والد محترم کی پنشن پلاٹ سے سوزوکی وین، دو عدد موٹر سائیکل رکشوں اور ان کی فروخت کے بعد ایک عدد کلر ٹیلی ویژن اور اسی” بھنوانے “کے بعد ایک عدد ریڈیو اوراس ریڈیو کی دن دیہاڑے چوری کے بعد آ ہوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔لہٰذاجن دنوں مشرف دور حکومت میں پرائیویٹ سیکٹرز اور میڈیا میں بے تحاشا پرُ کشش ملازمتوں کے مواقع نکل رہے تھے ما بدولت اس وقت پاک بحریہ میں وطن عزیز کے دور دراز مقامات پر جوانی کے خراج کی ادائیگی میں مصروفِ عمل تھے
تا ہم آج کی گفتگو کا موضوع اپنی حیاتِ غیر طیبہ کے ان تاریک پہلوؤ ں پر روشنی ڈالنا ہر گز نہیں بلکہ اپنے ادبی ذوق اور شاعرانہ مزاج کو پیش آمد مسائل کی مرثیہ خوانی ہے۔شعر و ادب سے ہمارا قلبی تعلق” لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری” والے زمانے سے ہے اور اپنے طبعی مراحل سے گزرتا ہوا جب شاعری پڑھنے ، ڈائری میں لکھنے ،سنانے اور شعر فہمی سے بڑھ کر جب شعر گوئی کے مقام تک پہنچا تو در حقیقت تب اپنی حقیقی بد نصیبی کے اس بھیانک پہلو سے آشنائی ہوئی اور اگر آپ کو بھی کبھی مشقِ سخن کا عارضہ لاحق ہوا ہے توآپ ضرور متفق ہوں گے کہ زمانہ قدیم سے دور جدید تک کے تمام سابق اور موجودہ شعراء کرام نے اردو شاعری کے سرمائے کو یوں بے رحمی سے استعمال کیا ہے کہ ان کی نسبت ہمیں خزانہ والے ڈار صاحب بھی بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ ستم ظریفوں نے تمام شعری و نثری تراکیب، قلبی وارداتوں کے ا حوال ، غم جاناں ودوراں کے جنجال،روایتی محبوب کے حسن و جمال،چال ڈھال،خدوخال،انقلاب سے سیاست اور مدح سرائی سے لعنت ملامت،تاج محل کی رفعتوں سے چاہ غب ،غب کی گہرائیوں تک اور رزم حق و باطل سے جنبش ابروئے قاتل تک کچھ بھی نہیں چھوڑا اور ہم جیسے عظیم شعرا جن کا قصور ما سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ محض ڈیڑھ دو سو سال تا خیر سے پیدا ہوئے ہیں کے لیے کچھ نہیں بچا۔
آمد کا الہامی وقت اس سوچ بچار میں ضائع ہو جاتا ہے کہ آخر لکھیں تو کس موضوع پر اور لکھ لیں تو محترم اساتذہ کرام کے کلام کی پیروی یا سرقے کے الزام سے کیونکربچ پائیں ۔ان کی زمین پر لکھیں تو فصل ہی ہاتھ سے جانے کا اندیشہ اور زمین اپنی ہو تو سند اعتبار کی فراہمی مشکل ہو جاتی ہے۔کئی مرتبہ اپنے ناقدرے دوستوں کو اپنے ذاتی اشعار فراز و فیض کے کہہ کر سنائے تو خوب داد سمیٹی اور اپنے نام سے سنانے پر مزا نہیں آیا کے تبصرے۔
ہمیں اپنی فکری صلاحیتوں اور تخلیقی صفات کا تو بخوبی علم ہے۔لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بعض اوقات انٹرنیٹ یا کسی قدیم دیوانے کے مطالعہ کے دوران اچانک منکشف ہو جاتا ہے۔ کہ آپ کی اپنی لکھی ہوئی، پسندیدہ اور حاصل کلام قسم کی غزل کا مرکزی خیال، عنوان یا زمین کوئی داغ، مرزا، سودہ یا حضرات میرسو سال قبل ہی ہتھیا چکے ہیں۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چائیں۔کبھی ہم ٹھنڈے دل و دماغ اور باریک بینی سے غور و خوض کرتے ہیں تو ہماری سمجھمیں آتاہے کہ اگلے وقتوں کے شاعر حضرات اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ا ن کو نا تو کبھی لمبی لمبی لائینوں میں لگ کے آٓٹا اور راشن کے حصول کا تردد تھا اور نہ ہی یوٹیلٹی کے بل کی ادائیگی کا مسلہ، بھلے زمانے تھے سیدھی سادی باد شاہتیں ہوتی تھیں ۔ نہ ان کا کبھی حقیقی جمہوریت سے پالا پڑا اورنہ ہی خود مختیار پارلیمنٹ سے نہ ان کے زمانے میں آزاد میڈیا تھا اور نہ اس کے نان ایشوز پر سنسنی پھیلا کہ گھنٹوں ٹی وی کے سامنے باندھ بیٹھا رکھنے والے اینکرز ، ان خوش بختوں کو ڈومیسائل ، پاسپورٹ آفس اور شناختی کارڈ دفتروں کے چکر بھی نہیں لگانے پڑتے تھے اور نہ ہی کرائے کے مکان اور موٹر سائیکل کی قسطوں کی ادائیگی کی ٹینشن تھی ۔ یہ شاعرانہ حضرات کسی سرنگوں سی ٹہنی پہ چار تنکے رکھ کے آشیانہ بنا لیتے
زمیندار لوگ اس زمانے میں دودھ اور مکھن کونو ر سمجھتے ہوئے فروخت کرنا گناہ سمجھتے تھے اور اسی طرح کی دیگر ضروریات زندگی بھی وافر مقدار میں مفت یا برائے نام قیمتوں دستیاب ہوتی تھی ۔ہندی فلمی صنعت اور سٹار پلس بھی غالباً اس دور میں نہیں تھے یا اس قدر مقبول نہیں تھے ۔ یا ر لوگ بالکل وھیلے اور ٹینشن فری ہوتے تھے ۔سوطرح طرح کی شاعری نہ کرتے تو کیا مکھی مچھر مارتے ۔ مکھی مچھر بھی پتہ نہیں اس دور میں تھے یا یہ تحفے بھی کینسر اور ایڈز کی طرح جدید دور کی پیدا وار ہیں۔
کبھی کبھار تو گمان ہوتا ہے کہ شعراء قدیم کے زمانوں میں رشتہ ازدواج کے تعلقات بھی شایدنہیں ہوتے یا یوں کہیے اگر تھے تو زوجگان حقیقی معنوں میں اللہ میاں کی گائیں ہوتی ہوں گی نہ نت نئے فیشن اور ڈیزائنوں کے ملبوسات ، زیور کا تقاضا اور نہ ٹی وی ، فریج ، اوون ، گاڑی ، بنگلے کا مطالبہ۔ غرض ہر طرف راوی چین ہی چین لکھتا اور یہ ظالم شعر ہی شعر ، ہم جیسے عصر حاضر کے شاعروں کی قسمت میں ہندی گانوں کی موجودہ سیاست پر حسب حال پیر وڈی لکھنے کے سوا بچا ہی کیا ہے۔

Facebook Comments

کاشف حسین
مجموعہ خیال ابهی فرد فرد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply