• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہیوسٹن میں مودی کا جلسہ اور ہمارا لمبی تان کر سونا۔۔۔ڈاکٹر زبیر اقبال

ہیوسٹن میں مودی کا جلسہ اور ہمارا لمبی تان کر سونا۔۔۔ڈاکٹر زبیر اقبال

اس اتوار کو ہیوسٹن میں ہونے والا مودی کا جلسہ ہماری پبلک ڈپلومیسی، میڈیا مینجمنٹ اور مشن کشمیر کیلئے بہت سارے سوال چھوڑ گیا۔ ایک زاویہ نظر اس واقعے کو دیکھنے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی روایتی آلکسی ، کاہلی اور کسل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہیں ہیں کہ چلو کوئی بات نہیں ایک جلسہ ہی ہوا ہے نا۔ چھوٹا ہے یا بڑا۔۔امریکہ میں ہویا جاپان میں، امریکہ کا صدر اس میں شامل ہو یا نہ ہو ، انڈیا کا وزیراعظم دہلی میں جلسہ کرے یا ہیوسٹن میں، کیا فرق پڑتا ہے؟ اس طرح بڑی آسانی سے اس واقعہ کو ہم اپنے روایتی قالین کے نیچے ڈال دیتے ہیں۔
ایک دوسرا نقطہ نظر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم عقل والوں کے لیے اس میں کچھ نشانیاں تلاش کریں۔ راولپنڈی اسلام آباد  میں بیٹھے ہوئے یہ بابوں، فیصلہ سازوں اور ارباب حل و عقد کے لیے کچھ سوچنے سمجھنے اور منصوبہ بنانے کا سامان مہیا کریں۔ تاکہ یہ لوگ کچھ سوالات اپنے آپ سے پوچھیں کہ کس طرح ہم اپنی تزویراتی ویژن اور اور پبلک ڈپلومیسی میں مہارت کو جانچ کر اور کیا کچھ کر سکتے ہیں کہ پہلے سے بہتر نتائج  حاصل کرسکیں۔

ذرا اپنے اس تصور کو مہمیز دیجیے اور اس منظر کو ذہن میں  لائیے   جب “ہاؤڈی مودی” کیمپین ہیوسٹن کے این آر جی سٹیڈیم میں اپنے نقطہ کمال کو پہنچی۔ ذرا اس منظر کو ایک بار پھر یاد کیجیے کہ جب بھارتی وزیراعظم مودی صدر ٹرمپ کو اپنی بغل میں لیے  ہزاروں شور مچاتے انڈینز کے سامنے اس طرح ہاتھ ہلاتا ہوا جارہا   تھا جیسے اس نے امریکہ سمیت  پوری دنیا کو فتح کرلیا ہو۔ اگر اب بھی آپ کو یہ لگتا ہے کہ یہ منظر ہماری نیم خفیہ  اسٹریٹجی کو جگانے کے لیے کافی نہیں ہے تو چلیے اس میں کچھ اور شامل کرتے ہیں۔ یہ ہے وہ منظر جس کو بہت زیادہ پاکستانی ٹی وی پر نہیں دکھایا گیا یعنی 25 سے زیادہ امریکی سینیٹرز کا ٹیکساس کے گورنر کے ساتھ ساتھ اس جلسے میں شریک ہونا، سٹیج پر کھڑے ہو کر مودی اور ٹرمپ سمیت ہاتھ میں ہاتھ ڈالنا اور بھارت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا۔ ابھی کافی ہے یا اور کچھ؟

اگر ہم نے پبلک ڈپلومیسی کی دنیا میں میں بھارت کا مقابلہ کرنا  ہے تو یہ واقعہ ہمارے سوچنے سمجھنے  اور کچھ مزید بہتر کرنے کے لئے بہت سارے اسباق مہیا کرتا ہے۔ یہ واقعہ اصل میں پبلک ڈپلومیسی کی بھارتی کوششوں کا ایک حصہ ہے جو اس نے پانچ اگست کو   ہونے والے بھارتی آئین   میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکلA 35 میں تبدیلیاں کرکے کیا،یہاں سوچنے سمجھنے والوں کے لئے میڈیا مینجمنٹ  کے حوالے سے کچھ کلیدی باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بیانیہ پس منظر میں نہ جائے اور پیش منظر پر چمکتا رہے تو آپ کو انگریزی اصطلاح کے مطابق پرائمری ڈیفائنر (Primary Definer) بننا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ   ہے کہ آپ کو کچھ ایسی تخلیقی میڈیا پراڈکٹ تیار کرنی ہوگی جو کہ کسی ایک واقعہ کے حوالے سے آپ کے بیانیہ کو ایک خاص نقطہ نظر سے سے دوسروں کے بیانیے پر فوقیت دے۔ اور اگر یہ آپ کا بیانیہ چل جاتا ہے  تو دوسروں کے پاس اس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں ہو گا کہ وہ آپ کے پیش کردہ بیانیہ کو آپ ہی کی عینک سے دیکھتے ہوے رد یا قبول کر سکیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں دوسری تمام تفصیلات مثلا ً ضلع   پس منظر میں ہونے والے واقعات، اور یہ واقعہ اس نہج تک کیوں پہنچا، ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ ذرا دیکھیے یہ بالکل ایسا ہی ہوا ہے جو اس وقت ہم پاکستانی کر رہے ہیں۔ بھارت   نے اپنے آئین میں تبدیلی کے بعد  پرائمری ڈیفائینر کی حیثیت حاصل کرتے ہوئے ایک بیانیہ تشکیل دیا اور اب ہم اسی بیانیے کو رد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اس پر اس سارے عمل میں کشمیریوں کی حالت زار، 70 سال سے زیادہ ان پر ہونے والے مظالم، کی حق خودارادیت پارٹیشن کا ایجنڈا سب کچھ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

اب ایک اور زاویے سے اس کو دیکھتے ہیں۔ کوئی بھی اخباری میڈیا نیوز ویلیو یا خبری قدر کے حساب سےکسی بھی واقعے کو   دو طرح سے دیکھتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ واقعہ حقیقی طور پر رونما ہوا ہو یا  اس واقعے کو تخلیق کیا گیا ہو۔ پہلے حوالے سے   کوئی بھی واقعہ جیسے کوئی حادثہ کوئی قدرتی آفت یا کسی  اہم شخصیت کی کوئی بات اپنے اندر خبری قدر رکھتی ہے۔ جبکہ دوسرے حوالے سے ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جو کہ میڈیا گروپ کے  سپن ڈاکٹرز کی دنیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو کسی بھی واقعے، شخص یا کسی ملک کے بیانیہ کو ایک خاص طریقے سے سپن کرتے ہوئے اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکیں۔ یہ میڈیا کو اس خبری اقدار کے حوالے سے اس غیر حقیقی ایونٹ کو اس نظر سے دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ یہی اصل حقیقت ہے۔ اور پھر موجودہ دور میں موجود سوشل  میڈیا کو یہ میڈیا گرو کچھ اس طرح استعمال کرتے   ہیں کہ  خواب کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ اور ہمارے خیال میں ہیوسٹن کے این آر جی اسٹیڈیم میں  پچھلی اتوار کو یہی کچھ  ہوا۔ اس جلسے   میں وہ تمام بالی وڈ مصالحہ کے لوازمات موجود تھے جو کسی بھی میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں بھارتی میڈیا گروہوں  نے سیاسی ایجنڈے    کو بالی ووڈ اسٹائل میں کچھ اس طرح سے پیش کیا اور کچھ ایسے وقت میں پیش کیا کہ جس سے صرف ِ نظر نہیں ہوسکتا تھا۔

جب  آپ خصوصی محنت کے ساتھ پبلک اور میڈیا ڈپلومیسی کو یکجا کرتے ہوئے یا اپنی روایتی ڈپلومیسی کے ساتھ چلاتے  ہیں تو متوقع نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ جب  بھارتی محکمہ خارجہ اپنے پہلے سے منظم روایتی ڈپلومیٹک رابطوں   کو مہمیز دے کر اپنی طرف صرف دنیاکی توجہ مبذول کروا رہا  تھا تو بھارتی   میڈیا والوں نے پرسپشن مینجمنٹ کا مورچہ سنبھال رکھا تھا۔ کل ملا کر آپ کے سامنے ایسی میڈیا پروڈکٹ پیش کی گئی کہ نہ صرف بھارتی میڈیا بلکہ امریکی میڈیا بھی اگلے   دن اس کو شہ سرخیوں میں میں پیش کرنے سے اپنے آپ کو نہ روک سکا۔

تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے ہم کیا غلط کر رہے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک کیوں نہیں ہو رہا۔ جب ہم اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ایک ایسا کیس پیش کر رہے ہیں  جس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں، لوگوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیا جا رہا ہے، لوگوں کو محبوس رکھا جا رہا ہے۔ تو پھر ہمارا بیانیہ قبول عام تک کیوں نہیں پہنچ رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس سوال کے بہت سارے مختلف جواب ہو سکتے ہیں ہیں لیکن ایک میڈیا مینجر کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا جواب کچھ یوں بھی ہو سکتا ہے ہے کہ جب ہمارا محکمہ خارجہ صبح و شام اپنے روایتی انداز میں کہیں کامیابی اور کہیں ناکامیاں سمیٹ رہا ہےتو ہماری پبلک ڈپلومیسی میں بہت کچھ ایسا ہے جو کم رہ گیا ہے۔ یا بہت کچھ ایسا ہے جو کہ ہونا چاہیے مگر نہیں ہوا ۔ وہ کیاہےجو ہونے سے رہ گیا ہے انہیں دو اصولوں کو دیکھنا ہو گااور ہمیں  ایسے ایونٹ تخلیق کرنے ہوں  گے جو دنیا بھر کے میڈیا کی توجہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ سب کچھ مزید تفصیل کا متقاضی ہے۔ جس پر اگلے کالم میں بات ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply