میں آزاد ہوں اور آزاد مروں گا — بلال شوکت آزاد

میں چھٹی والے دن اور اکثر جب فارغ وقت ملے تو دو عظیم انسانوں کی تصویر کئی  لمحوں  تک تکتا رہتا ہوں اور وللہ آنسوؤں کو بہنے سے روک نہیں پاتا اور کبھی جب بالکل تنہا ہوتا ہوں تو دھاڑیں مار کر روتا ہوں اور اپنی اس قسمت پر رشک کرتا اور اللہ کے آگے سجدہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اے اللہ تونے اپنے ان ایسے بندوں کی محنت اور جدو جہد قبول کی اور ان کی مدد کی تو یہ “سب کا پاکستان” ملا جن کو تیرے بظاہر عبادت گزار اور عالم فاضل انسانوں نے کافر مرتد اور نجانے کیا کیا کہہ کر ذک پہنچائی تھی۔

جی ہاں میں علامہ اقبال اور محمد علی جناح کی بات کررہا ہوں۔

واللہ ہم ان ہستیوں  اور ان کے رفقاء تحریک آزادی اور ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کو کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے۔میں کس وقت وہ لمحہ ہو جب ان کا احسان مند اور اللہ کا شکر گزار نہ رہوں کہ میں پاکستانی ہوں, ایسا ناممکن ہے۔

نہیں نہیں میں سوچنا بھی نہیں چاہتا کہ میں کیا ہوتا اور کیسا ہوتا اگر پاکستان نہ ہوتا؟

میرے سینے میں ایک درد سا اٹھتا ہے, دم گھٹتا ہے اور گلا رندھ جاتا ہے اور آنکھیں تر ہوجاتی ہیں جب میں چشم تصور سے ہجرت کے مناظر دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں۔

کٹے پھٹے عورتوں بچوں بزرگوں اور جوانوں کے لاشے اور ان سے اٹھتی بظاہر بدبو کے بھبھوکوں سے شہادت و ہجرت کی عطر کی سوندھی سوندھی خوشبو اور کھلی آنکھوں میں آزادی کی روشنی دیکھتا ہوں تو میرا جوان اور توانا جسم یکدم لاغر ہوجاتا ہے کہ یہ جو یہاں پڑے ہیں ہم نے ان کی اس قربانی کا کیا جائز مصرف کیا؟

اللہ کی قسم وہ تب نہ مرتے اور لٹتے تو آج ہم ہر روز مرتے اور لٹتے۔

میں بتا نہیں سکتا کہ اس وقت میں رو رہا ہوں اور لکھ رہا ہوں تو مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے کوئی ظالم جلاد سر پر کھڑا ہے اور وہ مجھے ہنٹر سے مار رہا ہے کہ لکھ لکھ اے موقع پرست اور کج فہم اور ذہنی غلام دانشور لکھ لکھ وہ داستانیں لکھ جن کی وجہ سے تیری زندگی کی یہ خوش کن کہانی جاری و ساری ہے اور میں روتا جارہا ہوں اور زخموں کا درد اور جلن محسوس کرتا ہوا سر جھکائے بس لکھے جارہا ہوں۔

کیا کیا لکھوں اور کہاں سے لکھوں اور کیسے لکھوں یہ ایک طویل داستان ہے جس کے سینے پر ہماری عزت ماب بہنوں بیٹیوں اور ماؤں کی لٹتی عزتوں کے دلخراش مناظر درج ہیں, جوانوں کی کٹی پھٹی جوانیاں اور جولانیاں ہیں, بزرگوں کے لاغر اور ضعیف اجسام کے چیتھڑے ہیں اور نوزائیدہ و کمسن طفلان کی گھٹی ہوئی چیخوں سے مزین کٹی گردنیں ہیں۔

کیسے لکھوں میں یہ سب؟

نہیں نہیں میں مرجاؤں گا یا شاید آسمان مجھ پر آن گرے اور زمین پھٹے تو میں اس میں سما جاؤں گا لیکن میں یہ خونی داستان آزادی نہ لکھ پاؤں گا اور۔

میں خود کو ایک بند اندھیرے کمرے میں ایک کونے میں سمٹا سکڑا بیٹھا محسوس کررہا ہوں اور سسک رہا ہوں خدارا مجھے یہاں سے باہر نکال لاؤ ورنہ میں گھوڑوں کے سموں تلے روندتے بچوں کی چیخوں, بلوائیوں کے بستروں پر مسلمان ماؤں بہنوں بیٹیوں کی لٹتی عزت کے وقت کی آہیں سسکیاں اور دھاڑیں اور بزرگوں و جوانوں کے خون کے فواروں کی سسکاریاں سن سن کر اور چشم تصور سے دیکھ دیکھ کر جیتے جی مرجاؤں گا, مرجاؤں گا۔

کیسے احسان بھول گئے ہو تم آج کے گمراہ پاکستانیوں ان آباؤ اجداد اور تحریک آزادی کے رہبرو رہنماؤں کا؟

مجھ سے تو نہیں بھولا جارہا۔

تم خوش کیوں ہو اور کس بات کی خوشی مناتے ہو انہیں بھول کر جو اس آزادی کے شہداء اور غازی تھے۔

سنو !رویا کرو ،خوب رویا کرو ،اتنا رویا کرو کہ تمہارا لباس تمہارے آنسوؤں سے تر ہوجائے اور تم جان پاؤ کہ یہ آزادی کیا ہے اور یہ “سب کا پاکستان” کیا ہے؟

میں محمد علی جناح کا مرتے دم تک مقروض رہوں گا جس نے ضدی, اکھڑ, منہ پھٹ, کافر, مرتد, انگریزوں کا پٹھو, مغرور اور خردماغ کہلوانا پسند کرلیا اپنوں اور پرائیوں سے لیکن میری آپ کی اور سب کی آزادی, عزت, خودمختاری اور “سب کے پاکستان” پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

میں علامہ اقبال کی فراست, فلسفے اور شاعری کے سحر سے نہیں نکلنا چاہوں گا کہ وہ مجھے اور تحرک دیتی ہے کہ میں اپنا آپ اب اس پاکستان پر لٹادوں جو “سب کا پاکستان” ہے۔

واللہ رو لو رو لو بہت سکون ملتا ہے کہ میں آزاد ہوں اور آزادی سے روتا اور ہنستا ہوں۔

میں رو رہاں ہوں خوشی سے بھی دکھ سے بھی۔

خوشی آزادی کی اور دکھ قربانیوں کی بے حرمتی کا ہے۔

میں “آزاد” ہوں اور “آزاد” مروں گا, ان شاء ﷲ۔

شکریہ شہید مہاجر پاکستانیوں۔

شکریہ علامہ محمد اقبال۔

شکریہ محمد علی جناح۔

شکریہ پاکستان۔

میرا پاکستان, آپ کا پاکستان, سب کا پاکستان۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شکریہ اللہ جی۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply