مسٹر ہنڈرڈپرسنٹ۔۔عارف انیس

ہم پہاڑ کو نہیں اپنے آپ کو فتح کرتے ہیں۔
سر ایڈمنسڈ ہیلری نے یہ جملہ دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کے بعد کہا تھااور سچ تو یہ ہے کہ یہ جملہ اسی شخص کو زیبا ہے جو ماؤنٹ ایورسٹ پر اپنا جھنڈا گاڑ چکا ہو۔
دُنیا کے مشہور ترین مصنفین میں سے ایک،جیک کین فیلڈ نے دو سال قبل ملاقات میں یہ واقعہ سنایا تھا۔جیک کی 25 کروڑ سے زایدکتابیں فروخت ہوچکی ہیں اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس پر جان نچھاور کرتے ہیں۔لندن میں جیک اور میں یورپ سے آئے ہوئے سینئرز لیڈرز کی ٹریننگ میں اکٹھے ہوئے تھے۔
ملازمت میں جیک کا ”پہلا ہفتہ تھا جب اس کے مالک نے بلایا اسے اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا؛کیا تم اپنی زندگی میں ہونے والے واقعات کی سو فیصد ذمہ داری لیتے ہو“؟
جیک نے سر ہلایا۔”میرے خیال میں،جی ہاں ایسا ہی ہے!“۔
”شہزادے۔مجھے ہاں،یا نہ  میں جواب دو“باس کی گرجدار آواز گونجی۔
”اوہ۔سچ پوچھو تو مجھے کچھ اندازہ نہیں ہے کہ آپ کیا جاننا چاہتے ہیں“۔ جیک نے کان کھجاتے ہوئے کہا۔
”چلو میں کچھ مزید آسان کر دیتا ہوں،کیا تم نے آج تک اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کا دوش کسی اورکودیاہے؟“
”کیا کوئی ایسا شخص جسے تم اپنی حیاتی میں گڑبڑ ہونے کا الزام دے سکو“۔
”آں،ہاں۔میرے خیال میں ایک دو ایسے لوگ ضرور ہیں موجود ہیں“ جیک کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’ہوں۔ پھر تم میرے زیادہ کام کے نہیں ہو“آگے سے روکھا سا جواب ملا۔”مجھے ان لوگوں کی تلاش ہے جو اپنے کیے دھرے کا بوجھ خود اٹھا سکیں۔دنیا بدلنے والے لوگوں نے کبھی کسی کو الزام نہیں دیا۔وہ کامیاب ہوں،یا ناکا م و ہ سو فیصد اس امر کی ذمہ داری لیتے ہیں۔مجھے وہ لوگ نہیں چاہئیں جو پانی، ہوا، ماحول، بارش، بجلی، گرمی،سردی وغیرہ پر اپنا الزام دھر دیں اور کسی نہ کسی بہانے کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کریں“۔
جیک کین فیلڈ کا کہنا تھا کہ اسی دن اس نے تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد وہ کسی پر بھی الزام تراشی نہیں کرے گا۔کیونکہ اس کے بقول اس نے کامیابی کے پہلے گُر کو پالیا تھا۔

میں پاکستان میں خود جب کبھی بھی کسی کالج ،یونیورسٹی میں کامیابی کے موضوع پر دھواں دھار گفتگو کرتا ہوں،اختتام پر کسی لڑکے یا لڑکی سے ملاقات ضرور ہوتی ہے۔
”بہت شکریہ سر۔کمال کردیا آپ نے۔بہت اچھی باتیں بتائیں آپ نے مگر میں کس طرح سے غیر معمولی نتائج حاصل کرسکتی ہوں“؟۔
”بہت آسان ہے۔ان تمام اچھی باتوں میں سے ایک اچھی بات پکڑیں اور اسے کرنا شروع کردیں۔اچھی باتیں جمع کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا“۔
ایسے سیمینارز کے اختتام پر عموماً یہ احساس ہوتا ہے کہ شرکاء صرف اپنے مسائل کا حل نہیں چاہتے، بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ حل ان کو نکال کر پیش بھی کردیا جائے.

یا پھر کچھ اس طرح کا مکالمہ چلتا ہے۔
”میں پچھلے تین سال سے موٹیویشن کے کورسز کیے جارہا ہوں اور اس موضوع پر 100عدد کتب بھی پڑھ چکا ہوں،لیکن اس کے باوجود میری زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے“۔
”تبدیلی کتاب کو پڑھنے سے نہیں،کتاب کو کرنے سے آتی ہے۔اگر آپ ایک ڈھنگ کی کتاب پڑھیں اور اس میں سے کچھ سیکھ کر ڈھنگ کا ایک کام شروع کر دیں تو آپ کو یہ گلہ کرنے کی ضرورت آئے گی“۔

گلہ کرنے کی بات چلی تو اس بات پر خوب مزے کا ڈائیلاگ چلتا ہے۔
”سر بس میں چونکہ گاؤں کا ہوں،اسی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہوں؟“
”اچھا وہ کیسے؟ میں تو خود بھی گاؤں کا ہوں۔اس وجہ سے آپ پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں؟ ہمارے ملک کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹرعبدالسلام آخری وقت تک پینڈو تھے“۔
”سر دراصل میرے والدین کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھااور خاندان والوں نے کسی جوگا نہیں چھوڑا“۔
”اچھا وہ تو دنیا میں کئی نامی گرامی بادشاہ اور فاتح ایسے گذرے ہیں جن کے ماں باپ کا بچپن میں انتقال ہو گیا،مگر انہوں نے کئی سو سال قائم رہنے والی سلطنتیں قائم کیں۔ فرغانہ سے بھگائے جانے والے ظہیرالدین بابر کے بارے میں کیا خیال ہے؟“

”سر آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ہمارے ملک میں تو بس سفارش چلتی ہے۔اور اپنا تو کوئی ایسا ہے ہی نہیں جو اس چوٹی کو سر کر سکے“۔
”ہاں، مجھے پتہ ہے کہ ہمارے ہاں سفارش بھی چلتی ہے۔لیکن اگر آپ مشقت کر سکیں توکوئی آپ کو روک نہیں سکتا۔میں خود ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں اور کم ازکم اپنے حلقہ احباب میں درجنوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو صرف اپنی محنت کی بنیاد پر کامیاب ہو پائے ہیں. انہوں نے سی ایس ایس کیا، پی سی ایس کیا، فوج میں افسر بنے اور ان کے پاس کوئی سفارش نہیں تھی“۔

”سر، کون نہیں جانتا کہ ہمارے سیاست دان بہت کرپٹ ہیں،اتنے کرپٹ معاشرے میں بھلا کیسے سروائیوکیا جاسکتاہے؟“
”درست،سیاست دان کرپٹ ہیں اور سیاست دان دنیا کے بہت سے ممالک میں کرپٹ ہیں، لیکن سیاست دان کے دیانت دار ہونے سے آپ کی کامیابی کاکیا تعلق ہے؟ آپ کو اپنی کامیابی کی ذمہ داری سو فیصد خود سے اٹھانی پڑے گی۔ کوئی بھی شخص دوسرے کے لیے ڈنڈبیٹھکیں نہیں نکال سکتا۔نکال بھی لے تو فائدہ اسی کو ہو گا آپ کا کچھ بھلا نہیں  ہوگا“۔

”سر،پاکستان میں بزنس نہیں ہوسکتا۔ایسے حالات میں بزنس کون کرے گا؟“
”میں تو اس بات سے متفق نہیں ہوں۔پاکستان شاید دنیا میں بزنس پر سب سے زیادہ ریٹرن دینے والا ملک ہے ,پچھلے تین سالوں میں کئی ایسے بزنس مینوں کو جانتا ہوں جولندن کے بہترین علاقوں سے بزنس باندھ کر پاکستان گئے اور ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جا کر ان کو لگا کہ وہ برطانیہ میں آج تک جھک مارتے رہے تھے“۔

”سر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سب اچھا ہے،بم دھماکے، پولیس گردی ،بجلی،گیس کے مسائل یہ سب ہمارا وہم ہے؟“
”نہیں، یہ سب مسائل حقیقی ہیں۔مگر دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں پر چوری، ڈکیتی، یا امن عامہ سے متعلق مسائل نہ ہوں میں لندن میں دو مرتبہ لٹ چکا ہوں اور کم ازکم دس بارہ افراد کو جانتا ہو ں جن کے ساتھ کوئی نہ کوئی واردات ہو چکی ہے۔تاہم مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تومسائل کا گول چکر،جو سرکل آف کنسرن کہلاتا ہے،بجلی،گیس،کالاباغ ڈیم،الیکشن میں دھاندلی وغیرہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں آپ پریشان توہو سکتے ہیں مگر شاید فوری طور پر کچھ کر نہیں سکتے،تاہم ایک اور گول چکر وہ ہے جس پر آپ فوراً کچھ کر سکتے ہیں۔
اگر بیٹھے بٹھائے وزن بڑھ رہا ہے،تو کھانے کی عادات بدل لیں،دن میں چھ گھنٹے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ملکی حالات پر تبصرہ سننے یاکڑھنے اورجی جلانے کی بجائے دن میں ایک گھنٹہ وہ کرنا شروع کر دیں جو آپ ملک کے لیے کرنا چاہتے ہیں“۔

”سر،اصل میں ملک سے کوئی مخلص نہیں ہے،پتہ نہیں ہمارا کیا بنے گا؟“
”آپکا وہی بنے ہو گا جو آپ خود بنائیں گے۔ اس ملک کا وزیر اعظم جو بھی ہو گا آپ کو اپنی زندگی کی گوڈی خود کرنی پڑے گی۔باقی جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو کیا آپ مجھے کوئی ایسا کام بتا سکتے ہیں جو آج تک آپ نے صرف پاکستان کے لیے کیا ہو اور جس میں آپ کا کوئی ذاتی فائدہ نہ ہو؟“

یہ مکالمہ عمومًا ان الفاظ پر آکر ختم ہو جاتا ہے۔

تو پیارے پڑھنے والے،اگر امتحان میں کا م نہیں بنا تواس کی وجہ وہ گھنٹے ہو سکتے ہیں جو آپ نے بستر میں گذارے ہوں،اگر توند بڑھ آئی ہے اور بلڈپریشر اور شوگر کا مرض لاحق ہو چکا ہے تو اس کی ذمہ داری ان چکنائی بھری خوراکوں پر عائد ہوتی ہے جو آپ ابھی کھانا چھوڑ سکتے ہیں۔اگر آپ ابھی تک بے روزگار ہیں تو شاید آپ نے تاحال کوئی ہنر نہیں سیکھا۔اگر لوگوں نے آپ کو بتایا کہ آپ دنیا کے سب سے نکمے اور ناکام انسان ہیں تو آپ نے ان کی بات کو سچا جانا اور جھٹلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔اگر آپ کو پروموشن نہیں مل سکی تو آپ عمومًا دفتر دیر سے پہنچتے ہیں اور کافی عرصے سے آپ نے کوئی نئی مہارت حاصل نہیں کی،اگر آپ کا مقامی ایم این اے بدمعاش ہے تو آپ نے اس کو ووٹ دیا، یا اس سے بہتر شخص کو ووٹ نہیں دیا،اگر آپ کی آمدن نہیں بڑھ رہی تو شاید آپ کو ملازمت نہیں،بزنس کرنے کی ضرورت ہے۔اوراگر آپ ٹی وی پر سیاست پر مکالمہ سن کر دم گھٹتا ہو محسوس کرتے ہیں تو شاید وقت آچکا ہے کہ آپ ٹی وی بند کر کے کوئی بہتر کتاب اٹھا لیں یا ورزش کے لیے باہر نکل جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں اپنے حصے کی کنڈی آپ کو خود ہی کھولنی پڑے گی۔کوئی بھی کسی دوسرے کے حصے کے ڈنڈ نہیں نکال سکتا۔

Facebook Comments