بوہے باریاں/مرزا شہباز حسنین بیگ

بوہے باریاں فلم. ،و مست ہے پلیٹ فارم کی بدولت دیکھی اور فلم کے ختم ہوتے ہی ریویو لکھنے کے لئے مجبور ہو گیا۔
اپنے موقف کو دلیل منطق اور جامع انداز میں کیسے پیش کیا جا سکتا ہے ۔اس کا اندازہ آپکو پنجابی فلم بوہے باریاں دیکھ کر ہوگا ۔
بہت ہی شاندار فلم جو کہ  فیمنزم کے موضوع پر تخلیق کی گئی ۔

برصغیر کے سماج میں عورت کا استحصال صدیوں سے جاری ہے سماج میں ہر قسم کے انسان رہتے ہیں ۔اچھے بھی بُرے بھی ،فلم میں بہترین انداز میں پنجاب کے ان مردوں کے رویوں کو آشکار کیا گیا ہے جو صنفی امتیاز پر یقین رکھتے ہیں ،عورت کا استحصال کرنا جائز سمجھتے ہیں،عورت کو کمزور، کم تر اور پاؤں کی دھول سمجھتے ہیں ۔

اپنے نظریات اور موقف کو ڈھنگ سے بیان کرنے کا انداز معلوم ہو تو یقین کریں نظریہ کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے ۔
ایسے مرد جو عورت کا مالی ،جسمانی ،ذہنی اور جنسی استحصال کرنا کوئی عیب نہیں سمجھتے، ان کو سمجھانے کی بہترین کاوش کا نام فلم بوہے باریاں ہے ۔

فلم میں بھارتی پنجاب کے اک دور دراز گاؤں میں خواتین کے ساتھ برتے جانے والے صنفی امتیاز کی عکاسی کی گئی ہے ۔
فلم میں سات آٹھ بزرگ خواتین مردوں کے مظالم سے تنگ آکر فلم کے مرکزی کردار مائی بھورو کی سربراہی میں گاؤں سے دور دریا اور جنگل کے سنگم پر گھر بنا کر الگ رہنے لگتی ہیں ۔
لفظ گھر کے لیے پنجابی زبان میں کیا ہی خوبصورت لفظ موجود ہے ۔چمباہ
آپ نے مشہور زمانہ پنجابی گیت میں یہ لفظ سنا ہوگا ۔
ساڈا چڑیاں دا چمبا اے بابل اساں ٹر جانا۔

وہاں یہ عورتیں مل کر گاؤں سے الگ تھلگ رہتی ہیں ۔
کوئی سبزی بیچتی ہے کوئی دریاں بُنتی ہے کوئی دودھ بیچتی ہے الغرض اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کر کے زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلاتی ہیں ۔
گاؤں کے سرپنج کا بیٹا اپنے گھر کام کرنے والی جوان لڑکی کا جنسی استحصال کرتا ہے اور جب لڑکی کی کوکھ میں زندگی جنم لیتی ہے تو وہ شادی سے انکاری ہو جاتا ہے ۔اور اسکو  جوتوں سے مار مار کر ادھ موا کر دیتا ہے ۔

یہاں سے کہانی میں اک نیا موڑ آتا ہے ۔

کیسے وہ بزرگ عورتیں اس لڑکی کے حق کے لیے کوشش کرتی ہیں اس کے لیے آپکو فلم دیکھنی پڑے گی ۔
فلم میں پولیس آفیسر کا کردار نیرو باجوہ نے ادا کیا ہے ۔
لیکن نیرو باجوہ نے اپنی اوور ایکٹنگ سے بہت مایوس کیا
فلم میں صرف نیرو باجوہ کی اداکاری اور کردار نگاری اوسط درجے کی ہے ۔
اس کے علاوہ پوری فلم میں کوئی جھول محسوس نہیں ہوتا ۔

ہمارے پاکستان میں پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں کم و بیش یہی صورتحال ہے جہاں پر شوہر عورتوں کے ساتھ مار پیٹ اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں ان سے مزدوری بھی کرواتے ہیں ۔مزدوری میں آجر ان کا استحصال کرتا ہے اور گھر میں مرد ۔

پاکستان میں فیمنسٹ خواتین مارچ کے مہینے میں عورت مارچ کرتی ہیں،لیکن بدقسمتی سے  اپنے موقف کو ڈھنگ سے بیان کرنے کے سلیقے سے محروم ہیں ۔
اپنے متنازع سلوگن اور متعصبانہ نعرے بازی سے اپنے موقف کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتی ہیں ۔

پاکستانی فیمنسٹ خواتین رہنماؤں کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے، تاکہ انھیں علم ہو سکے کہ فیمنزم جیسے نظریہ کو شائستگی دلیل منطق سے کیسے پیش کیا جا سکتا ہے ۔
اور خواتین کے استحصال کے خلاف جدو جہد احسن طریقے سے کیسے کی جا سکتی ہے ۔
سماج میں ہر مرد ظالم بھی نہیں ہوتا ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جو عورت کو ہرگز کم تر نہیں سمجھتے ،اور عورت کے حق کے لیے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

فلم میں اک مرد ایسا بھی ہے جو ان عورتوں کے ساتھ کھڑا ہے ۔سیسہ پلائی دیوار بن کر ۔
اک بہترین فلم جو سماج میں عورت کے حقوق کے لیے آگاہی فراہم کرتی ہے ۔
انتہائی عمدہ عکاسی کرتی ہے ۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply