• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی کا کھتارسس/جمہوری و حکمرانی صوابیدیدی اخیتار یا جاجا ڈاکٹرائن کے پیروکار۔۔اعظم معراج

پاکستانی کا کھتارسس/جمہوری و حکمرانی صوابیدیدی اخیتار یا جاجا ڈاکٹرائن کے پیروکار۔۔اعظم معراج

جاجا ڈاکرائن کے بانی جناب جاجا صاحب کا فون آیا ۔ فون کی تفصیل میں جانے سے پہلے میں جاجا صاحب کے بارے میں بتا دوں,
میری ان سے پہلی ملاقات سڑک پر ہوئی, میں اپنے برادر نسبتی عارف کو اسکے گھر چھوڑنے پہنچا تو ان کی بلڈنگ کے نیچے سڑک پر میرا دوسرا برادر نسبتی بابر کسی موٹر سائیکل سوار کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا جیسے ہی ہم گاڑی سے اتر کر اوپر جانے لگے بابر نے عارف کو آواز دے کر کہا
’’ عارف ، جناب جاجا صاحب‘‘ ۔۔۔۔ کیونکہ عارف اور میری طرف موٹر سائیکل سوار کی پشت تھی اس لئے بابر نے عارف کو اس کی طرف متوجہ کیا ۔ ہم دونوں نے بھی جا کر موٹر سائیکل سوار جو کہ موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے ہی باتیں کر رہا تھا اس سے ہاتھ ملایا ۔ عارف نے اس سے حال احوال لیا۔اور پوچھا کہ کب فیصل آباد سے کراچی آئے ہو؟ اور آج کل کیا کر رہے ہو؟ جاجا صاحب کی بجائے بابر نے اپنے بھائی کو بتایا کہ یہ تو بڑے عرصے سے ادھر ہی ہیں ۔ کیا کر رہے ہو؟ ۔ کا جواب جاجا صاحب نے خود دیا ۔
’’پہلے تو وہ ہی فیصل آباد والا کا م کرتا رہا ۔پھر ایک دو دفعہ پکڑا گیا ۔اب دنیا دکھاوے کیلئے چھوٹی موٹی ملازمت کر رہا ہوں باقی اپنا کام اب صرف جعلی سرٹیفکیٹ ڈگریوں ، ڈومی سائل تک محدود کر دیا ہے ،اوریہ کام بھی میں صرف شرفا اور اچھے اداروں کے لئے کام کرتا ہوں۔‘‘
پھر اس لمبے تڑنگے اور کھلے ہڈ پیروں والے کھلے ڈھلے آدمی نے قہقہہ  لگا یا اور کہا۔’’ شرفا اور اچھے اداروں کیلئے کام کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ شریف آدمی اور اچھے ادارےاپنی عزت سے ڈرتے ہیں اور بلیک میل ہوتے ہیں اور
(سانوں لتھی چڑھی دی کوئی نئیں)
(ہمیں عزت بے عزتی کی کوئی پروا نہیں)
لہذا  پکڑے جانے کے چانس نہ ہو نے کے برابر ہیں پھر انھوں نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور رخصت ہوگئے۔
انکے آخری فقرے کو ہم تینوں نے خوب انجوائے کیا اوربابر نے جاجا صاحب کے بارے میں بتایا کہ بھائی میں تو اگر کہیں سرِ راہ مل جائیں تو انھیں avoid کرتا ہوں کیونکہ یہ فیصل آباد میں جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوانے میں لوگوں کی مدد کرتے تھے اور یہاں بھی آپ نے سن لیا انکے کام کے بارے میں، جاجا صاحب چلے گئے اور میں انکے اس ڈاکٹرائن (شریف آدمی اور اچھے ادارے اپنی عزت سے ڈرتے اور بلیک میل ہوتے ہیں اور
سانوں لتھی چڑھی دی کوئی نئیں
(ہمیں عزت بے عزتی کی کوئی پروا نہیں)
کے بارے میں جتنا سوچا ،اسکے قابل عمل اور کامیابی کی کنجی کا قائل ہوتا گیا۔ اور اسے ۔۔۔لچا سب تو اُوچا ۔۔۔اور بلوچ کہاوت۔۔۔ میں بے شرم ہوں میں ترقی کروں گا۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ چور اوچکا چوہدری تے غنڈی رن پردان ۔اور پشتو محاورا” تیرامال میرا ۔۔۔اور میرا مال ہی ہی ہی”۔۔۔اور اس طرح کے پوری دنیا کے  ادب میں دستیاب لاکھوں محاوروں کا نچوڑ لگا اور اپنے وطن میں اس ڈاکٹرائن کے ثمرات ہر طرف پھیلے ہوئے نظر آئے۔
یہ تھا جناب جاجا صاحب کا مختصر تعارف ،جناب جاجا صاحب تو اس ڈاکٹر ئن کے مجھے مقامی بلکہ چھوٹے سے علاقائی بانی لگے یا یہ فلسفہ ان کے ذریعے بالکل جامع اور مختصر تعریف کی شکل میں مجھ تک پہنچا ،جب کہ  یہ ایک قدیم فلسفہ حیات  ہے، اور اسکے پیروکاروں کی کامیابیوں اور دنیا کے ان پر اثرات پر اب تک ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی اور لکھی جاتی ر ہیں گی ۔ دنیا بھر میں جہاں محنت صبر لگن اور جدو جہد سے کامیابیاں سمیٹی جاتی ہیں  ہیں ، وہیں جاجا ڈاکٹرائن کے پیروکار بھی انسانی تاریخ میں بڑے کامیاب ر ہے،تیسری دنیا کے مقدر میں تو اکثر اس ڈاکٹرائن کے پیروکار حکمران ہوتے ہیں اور جب حکمران ایسے نصیب ہوتے ہیں تو انکی چھتر چھایا میں بدمعاشیہ اشرفیہ بن جاتی ہے لیکن آج کل تو  امریکی صدر بھی اسی فرقے کے پیروکاروں میں سے ہیں کیونکہ انکے بارے میں جو انکشاف ہو رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ اسی ڈاکٹرائن جسے میں نے جاجا ڈاکٹرائن کا نام دے رکھا ہے کے سچے پیروکاروں میں سے ایک ہیں۔
جناب جاجا اکثر اوقات مجھے اپنی عقل دانش سے مزین گفتگو سے نوازتے ہیں اور اپنے فلسفہ حیات کے بارے میں بتاتے اور اپنے اس فلسفے کے پھلنے پھولنے کا بھی بتاتے ہیں۔
جس دن حکومت پاکستان نے علی جانگیر صدیقی کو امریکہ میں سفیر تعینات کیا اس دن صبح سویرے ہی ان کا فون آیا
سلام دعا کے فوراً بعد بولے ،یار یہ مقابلے کا امتحان ہر سال ہوتا ہے؟
میں نے کہا ہاں, پھر بولے ہزاروں ذہین پڑھے لکھے محنتی نوجوانوں میں سے چند سو پاس ہوتے ہیں؟
میں  نے کہا جی ایسا ہی ہے۔
پھر بولے ان میں سے چند بہترین فارن سروس کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں؟ میں نے ہنگورہ دیا ” ہاں
پھر جاجا صاحب بولے انہیں پہلے سول سروس اکیڈمی اور پھر فارن سروس اکیڈمی میں بہترین استاتذہ تربیت دیتے ہیں پھر یہ دنیا بھر میں تعینات ہوتے ہیں اور اکثر دنیا بھر کی بہترین یونیورسٹیوں میں بھی تربیت حاصل کرتے ہیں پھر دو تین دہائیوں بعد مسلسل تربیت تجربات کے عمل سے گزرنے کے بعد اس بات کے خواب دیکھتے ہیں کہ  اب ہمیں کہیں سفیر تعینات کیا جائے گا ؟
میں نےکہا جی ایسا ہی ہے۔ اور جنہوں نے سارے کیریئر میں بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی ہے انہیں امید ہوتی ہے کہ ہمیں  کسی بڑے ملک میں اپنے ملک کی نمائندگی کا موقع ملے گا ؟
میں نےکہاں جی ایسا ہی ہے لیکن یہ صبحِ ہی صبحِ یہ سب مجھے بتانے کی کیوں ضرورت پڑ گئی آپ کو ؟
وہ بولے اچھا ایک آخری سوال بتاؤ جمہوریت کا مطلب نا انصافی ہوتا ہے؟ یا ایسا نظام ہوتا ہے جو ایک شخص کو من مانی کرنے کا اختیار دیتا ہے؟ میں نے کہاں قطعی نہیں!
جاجا صاحب غصے سے بولے یہ جو تمھارے وزیراعظم نے اسٹاک میں مندی تیزی کرنے والے کے بیٹے کو سفیر لگایا ہے، جس نے ملین ڈالرز کے سوال کا کسی بڑے کو ہاں میں جواب دیا ہے، بلکہ یہ جواب بھی ابا حضور نے ہی دیا ہو گا ،یہ کیا ہے ؟ نا انصافی نہیں؟ انکے ساتھ ،جو دہائیوں ملک کی خدمت کرتے ہیں اور پھر کبھی کوئی لیٹریل انٹری والے غلام(جنہیں سول سروس والے غصے میں لیٹرین انٹری بھی کہتے ہیں) کبھی چھٹی نویس نما صحافی واجد شمس الحسن کبھی قلم کے سوداگر قاسمی ،ملحیہ لودھی ،حقانی اور کبھی کوئی آمر جرنیلوں کا ہم نوالہ و پیالہ ساتھی اور اسی طرح کے دیگر کہاں سے آجاتے اگر وہ کیریئر افسر اس قابل نہیں ہوتے تو اس نظام کو لپیٹ دو ،اس پر کیوں خرچہ کرتے ہو اور اگر یہ اتنے ہی جینئس ہوتے ہیں تو پھر ایسے ساروں کو  کیبنٹ  میں کیوں نہیں لے لیتے اور اگر ریاست ایسے ہی چلانی ہے تو پھر صدارتی بلکہ صدارتی بھی نہیں وہ تو جوبداہ ہوتا ہے ،آپنے الیکٹوریل کالج کو ختم کرکے سات سات فرشی سلام کرنے والے کسی شہنشاہی نظام کی بنیاد کیوں نہیں رکھتے جب صوابیدیدی اختیارات استعمال کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو۔۔
اورہاں آخر میں یہ میرے ڈاکٹرائن کو بدنام مت کیا کرو کہ صرف مجھے اور میرے فلسفے کے پیروکاروں کو ہی لتھی چڑھی دی کوئی نئیں، بلکہ یہ سمجھ لو ہماری ساری اشرفیہ جن پر اس ریاست کے مفادات کی حفاظت کی ذمہ داری ہےکو ہی لتھی چڑھی دی کوئی نہیں، اور ادارے اور پاکستانی کیریئر ڈپلومیٹ خاموش رہتے ہیں جمہوریت کے نام پر اتنی بڑی نا انصافی پر۔۔
میں نے شرمندگی سے کہا، جب ادارے بلیک میلنگ کے ڈر سے خاموش رہتے ہیں جن کے ساتھ بے انصافی ہوتی ہے، وہ رروٹی ٹکر کے چکر میں خاموش رہتے ہیں ورنہ جس کا ڈائریکٹ حق مارا جاتا ہے وہ استعفی دینے کی روایت ڈالیں تو دنیا کو پتہ چلے جمہوری چھری کہاں چلی ہے، لہذا جب سب خاموش ہیں تو اپنے آپ کو شریف ثابت کرنے کے لیے میں بھی خاموش ہوں اور ہاں صبح صبح مجھے تنگ مت کیا کرو میں معافی چاہتا ہوں۔ جو کبھی طنزیہ تمھارے ڈاکٹرائن پر بات کرتا ہوں، دل کے اندر ایک حسرت دبائے بیٹھا ہوں کہ کاش میرے پاس بھی اتنی ہمت اور جرات ہو کہ میں سرعام تمھارا پیروکار بن جاؤں!
7دسمبر 2018

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک تحریک شناخت کے بانی رضا  کار اور 18کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply