جلدی سے بیس کروڑ لوگ مار دو۔۔۔۔ شجاعت بشیر عباسی

ابھی پچھلی صدی کی ہی تو بات ہے یورپ فتنہ انگیزی کی لپیٹ میں تھا ہر ملک اپنےپڑوسی ملک کے ساتھ سرحدی و علاقائی تنازعات میں بری طرح سے الجھا ہوا تھا۔طاقت اور حماقت کے آگے انسانیت کی بے قدری عام تھی، وحشت ،جہالت ،خباثت سے لبریز ماضی قریب کا یورپ معاشی اعتبار سے بھی غیر مستحکم تھا۔
اپنے دانشوروں کی بے قدری عام تھی ،چرچ کے الٹے سیدھے خود ساختہ احکامات کے آگے فطرت کی اہمیت تقریباً نہ  ہونے کی برابر تھی۔

اس سارے منظرنامے کے بعد وہی ہوا جو ہمیشہ انسان کرتا آیا ہے ،جنگ عظیم اول ہوئی ،انسانیت سسکتی رہی، بے رحمی سے عام قتال ہو،ا لگ بھگ پانچ کروڑ انسان جن میں بچے جوان بزرگ اور خواتین ،مارے گئے ۔۔کروڑوں کی تعداد میں ہی زخمی اور اپاہج  ہو کر معیشت پر بوجھ بنے ۔1914 سے لے کر 1918 تک پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والی یہ جنگ پھر بھی یورپ کو انسان نہ بنا سکی۔
کئی ممالک کے ٹکڑے ہونے کے باوجود لالچ اور حماقت کے جراثیم ابھی تک یورپ کے ذہن و دل کو  جکڑے ہوئے تھے، لاوہ پکتا رہا ،ٹھیک 21 سال بعد یورپ پھر جنونی ہوا ،انسانیت پھر حسرت کی نذر ہوئی، دوسری جنگ عظیم میں تو ظلم و بربریت کی انتہا ہوئی، جدید اسلحے اور مختلف گیسوں کو اپنا ہتھیار بنایا گیا۔
یہ جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر انسانیت کو چکی میں پیستی رہی، حتیٰ کہ ایٹم بم تک چلانے سے دریغ نہیں کیا گیا۔

جنگ تو جاری تھی لیکن یورپ ان جنگوں کی ہولناکیوں سے آگاہ ہو چکا تھا، اسی لیے جیسے ہی ہٹلر کی خودکشی منظرعام پر آئی تو جنگ یکدم رک گئی، جیسے کسی نے سوئچ آف کر دیا ہو۔
جنگ ختم ہوئی ،معاہدے ہوئے ،امن ہوا تو ترقی بھی ہوئی، کئی مشترکہ پالیسیوں اور مشترکہ کرنسی نے معیشت کو عروج بخشا ،بارڈر  پر کشیدگی نہ  ہونے کے برابر رہ گئی، کئی تنازعات کو باہمی روابط سے سلجھانے کا یہ فائدہ ہوا کہ  مستحکم معیشت نے عوام کو خوشحال کر دیا۔

یورپ کے حکمرانوں نے بھی جنگ میں اپنی توانائی اور وسائل ضائع کرنے کے بجائے تعلیم، صحت اور دیگر معاشرتی مسائل کو ترجیحی  بنیادوں پر حل کرنے اور عوام کی فلاح وبہبود اور مضبوط قوانین کو یقینی بنانے  پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
نتیجہ سامنے ہے۔۔۔ یورپ نے ترقی کی، وہاں عام لوگوں کا معیارِ زندگی بہ نسبت برصغیر کے بہت بہتر ہے، معیاری تعلیم کی وجہ سے یورپ نے سائنسی تحقیق کا دائرہ وسیع کیا، جس سے بہت سی کامیابیاں ممکن ہوئیں ، میڈیکل کے شعبے نے انسانیت کی بھلائی میں اہم کردار ادا کیا۔
یورپ نے اپنی ترجیحات بدلتے ہوئے آپسی جنگ وجدل سے جان تو چھڑا لی لیکن اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑی، دس کروڑ سے زائد لوگوں کو مارنے یا زخمی کرنے کے بعد انہیں امن نصیب ہوا اور شدت پسندی کا خاتمہ ہوا۔۔۔

اگر ہم برصغیر کا موازنہ یورپ سے کریں،تو ہم اہل برصغیر شاید ابھی 1905 میں کھڑے ہیں۔۔( یاد رہے پہلی جنگ عظیم کی پلاننگ جرمنی نے 1905 میں کی تھی)۔موجودہ پاک بھارت کشیدگی پر آپ کو دونوں ممالک میں ایک طرف ہندو توا اور دوسری طرف غزوہ ہند کے پُرجوش حامیوں کی اکثریت نظر آئے گی۔
خطرناک اسلحے سے لیس ان دونوں ممالک میں شدت پسندوں کی اکثریت جمع ہے ،دونوں ممالک ایک دوسرے کو مبہم ہی سہی لیکن ایٹم کی دھمکی بھی دے چکے ہیں، کشمیر کا مسئلہ نہ  تو انڈیا کا ہے، نہ  ہی پاکستان کا۔۔ یہ دونوں ممالک آج اس سے دستبردار ہو جائیں تو مسئلہ ختم لیکن ایسا نہیں ہو رہا، کشمیریوں کو حق رائے دہی دینے کی  بجائے یہاں زور زبردستی ،دھونس دھمکیوں ،ریپ تشدد جبر اور منفی پروپیگنڈے سے کشمیریوں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔

یہ ظلم ،یہ بربریت ایک دن اپنا رنگ ضرور دکھائے گی ،بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ  اگر یہ ناانصافی جاری رہی تو تباہی برصغیر کا مقدر بن جائے گی ،اب چونکہ انگریز ہماری ذہنی سطح سے خوب آگاہ ہے اور اہل برصغیر کی ذہنی صلاحیتوں کو اپنے سے آدھا قرار دے چکا، 33 فیصد پاسنگ مارکس کی صورت ،تو ایسے میں  یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ  جو امن یورپ نے دس کروڑ انسان مار کے حاصل کیا شاید کمتر ذہنی صلاحتوں کے باعث ہم اس معراج تک بیس کروڑ عوام مار کر پہنچ سکتے ہیں۔

حالات کو دیکھتے ہوئے یہ تو طے ہے کہ  ہمیں مرنا ہو گا، خوش قسمتی سے ہم بچ بھی گئے تو ہماری نسلیں اس بربریت سے نہیں بچ پائیں گی۔۔گنجان آباد علاقوں اور کمترذہنی صلاحتوں کی وجہ سے شاید مرنے والوں کی تعداد جنگ عظیم اول و دوم سے دوگنی ہو گی یا شاید ہماری سوچ سے بھی زیادہ تباہی ہو سکتی ہے۔مجھے دونوں ممالک کے موجودہ معاشرتی رویے سے بالکل بھی امید نہیں کہ  یہ جنگ ٹل سکے گی ،کیوں کہ  دونوں ہی ممالک انصاف پسندی اور انسان دوستی سے نا آشنا ہیں۔

اس جنگ کی لپیٹ میں پڑوسی ممالک بھی آئیں گے انہیں بھی نقصان اٹھانے ہوں گے، جب خود کو ہم اچھی طرح برباد کر لیں گے ،اس کے بعد امن بھی یقینی ہو گا۔۔۔ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے بھی لگیں گے ،مشترکہ تجارت سے یہ خطہ خوشحال بھی ہو گا اور دفاعی اخراجات میں کمی ہونے کے باعث حکمران عوام پر بھی خرچ کریں گے ،ہمارے اس خطے میں بھی تعلیم کو اولین ترجیح دی جائے گی، انسانیت کی بھلائی کی باتیں اور کوششیں ہر سطح پر ہوتی دکھائی دیں گی، قانون ہر عام شہری کا محافظ ہو گا عدالتیں انصاف دیں گی شدت پسند رویے کی جگہ لوگوں کی گفتگو میں اعتدال دکھائی دے گا۔۔
لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنے اندر کی خباثت نفرت اور جہالت کو جنگ کی صورت راستہ دینا ہو گا۔۔۔مطلب بیس کروڑ انسان تو مارنے ہی ہوں گے اندر کی شدت پسندی کو نکالنے کے لیے۔
اسکے بعد سب اچھا ہو جائے گا اور باقی ماندہ برصغیر کے باشندے درست سمت میں گامزن ہو جائیں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :یہ ایک طنزیہ کالم ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply