یہ TODD SHEAکون ہے؟ ۔۔۔حسن نثار

وہ ایک سٹار تھا کیونکہ فنکار تھا اور اس کا فیورٹ ساز گٹار تھا۔ وہ آج بھی ایک مشہور گلوکار اور گٹار پلیئر ہے لیکن مدت ہوئی اس کی ترجیحات مکمل طور پر تبدیل ہو چکیں۔ وہ اپنی زندگی قدرتی آفات میں گھرے انسانوں کے لئے وقف کر چکا۔میں اس امریکن گورے TODD SHEAکی بات کر رہا ہوں جسے ’’نائن الیون‘‘ نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ سری لنکا، جاپان، ہیٹی، فلپائن، بنگلہ دیش اور پاکستان…… جہاں بھی انسان پر آفت ٹوٹی، یہ رنگین آنکھوں، سنہری بالوں، گوری رنگت، اجلی مسکراہٹ اور گول مٹول بدن والا فرشتہ سیرت وہاں پہنچ کر دن رات سے بے نیاز انسانیت کی خدمت میں جت گیا لیکن اس سفر میں اس کے ساتھ ایک واردات ہو گئی۔TODD SHEAکو پاکستان اور پاکستانیوں سے پیار ہو گیا۔ 2005ء کے بے رحم زلزلے کے بعد نارتھ امریکن پاکستانی ڈاکٹرز کے ساتھ زلزلہ زدگان کی مدد کیلئے پاکستان آیا اور خود پاکستان ہو گیا جیسے ’’رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘۔ آج بھی جب وہ گٹار کے ساتھ ’’دل دل پاکستان جان جان پاکستان‘‘ گاتا ہے تو سوہنی دھرتی اس کے انگ انگ میں رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔بوسٹن میں میرا ایک بہت ہی عالم فاضل اور انٹلکچوئل دوست رشید شیخ رہتا ہے جس کا گھر مجھے اس لئے بھی بہت پسند ہے کہ گھنے درختوں میں گھرے اس گھر کے عقب میں اصلی اhasaامریکنوں یعنی ریڈ انڈینز کی قدیم رہائش گاہوں کی باقیات کو سرکاری طور پر محفوظ کیا گیا ہے جو مجھے بہت فیسی نیٹ کرتی ہیں لیکن یہ اک اور کہانی ہے۔ اصل بات یہ کہ وہیں کہیں TODD SHEA اور رشید شیخ کی دوستی ہو گئی اور یہ کیسے ممکن تھا کہ ذکر پاکستان کا ہو اور رشید شیخ جیسا دوست مجھے بھول جائے۔ رشید نےTODDسے کہا ’’لاہور جانا ہو تو میرے دوست سے ملنا، تمہیں اچھا لگے گا‘‘ ساتھ ہی میرا کانٹیکٹ بھی دیدیا۔ چند ماہ پہلے TODDنے رشید شیخ کے حوالہ سے فون کیا تو میں نے TODDکو چائے پر بلا لیا لیکن گھر والوں کو یہ بتانا بھول گیا کہ مہمان ’’گورا‘‘ ہے اس لئے مرچ مسالا پر ہتھ ہولا رکھیں۔ شام کو مہمانوں کی آمد ذرا زیادہ ہوتی ہے اور تقریباً سٹینڈرڈ قسم کا مینیو جس میں پکوڑے، چاٹ، دہی بھلے، شامی کباب اور سینڈوچ ہوتے ہیں، اور ظاہر ہے یہ سب کچھ خاصا سپائسی ہوتا ہے۔ TODDاپنے سٹاف سمیت پہنچا، ابتدائی گپ شپ کے دوران ہی چائے لگ گئی، ڈائننگ ٹیبل پر نظر پڑتے ہی مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا لیکن دیر ہو چکی تھی۔ خوش گفتار اور خوش خوراک TODD نے جب مختلف چیزیں چکھنے کے بعد انگوٹھا بلند کرتے ہوئے ’’زبردست‘‘ کا نعرہ لگایا تو میں ریلیکس کر گیا اور TODDنے بتایا کہ وہ پاکستانی کھانوں پر ’’لگ‘‘ چکا ہے اور اسے چٹپٹے کھانے بہت پسند ہیں۔ اردو پنجابی کچھ کچھ سمجھ اور بول بھی لیتا ہے۔ چند مخصوص اصطلاحیں اور الفاظ اسے بہت پسند ہیں مثلاً ’’زبردست‘‘ کا لفظ وہ جس ’’زبردست‘‘ انداز میں بولتا ہے…… طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ TODDنے بتایا کہ 2005ء میں جب اس نے زلزلہ زدگان کی خدمت کیلئے پاکستان آنے کا اعلان کیا تو اس کے خاندان اور حلقہ احباب میں کھلبلی مچ گئی کہ وہ تو دہشت گردی کا گڑھ اور دھماکوں کا مرکز ہے، لوگ بھی غیرمہذب ہیں وغیرہ وغیرہ۔ TODDنے کسی کی بات تو نہ سنی نہ مانی لیکن کچھ باتیں لاشعور میں ضرور بیٹھ گئیں لیکن بقول اس کے ’’جب میں پاکستان آیا، لوگوں سے ملا برتا تو انہیں انتہائی گرمجوش، محبت کرنے والے، مہمان نواز، مخلص پایا تو ان کی محبت میں مبتلا ہو گیا‘‘۔ وہ دن جائے آج کا آئے، وہ ’’دل دل پاکستان‘‘ ہو گیا اور جب ’’بیک ہوم‘‘ اپنوں کو بتایا کہ پاکستان کیسا ہے تو وہ حیران رہ گئے۔زلزلہ زدگان کیلئے TODDکی خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان پرویز مشرف نے 2006ء میں اسے ’’تمغۂ ایثار‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔ ضرب عضب کے دوران مہاجرین کیلئے بنوں میں لگائے گئے IKFکے میڈیکل کیمپ بھی اس کی نگرانی میں کام کرتے رہے۔TODDنے شروعات ہی پاکستان آرمی کے ساتھ کام سے کی تھی اس لئے وہ ان کا ’’زبردست‘‘ مداح ہے۔ ڈسپلن کومٹمنٹ وغیرہ تو اپنی جگہ، وہ نوجوان افسروں کی انگریزی کو سراہتے اور ہنستے ہوئے کہا ہے۔۔ ’’ہم امریکنوں نے تو انگریزی زبان کی شکل ہی بگاڑ دی ہے لیکن عام پاکستانی اور بالخصوص فوجی بہت عمدہ انگریزی بولتے ہیں‘‘۔2005ء زلزلہ میں متاثرین کی مدد کے بعد ان کی بحالی کیلئے دوستوں کے کہنے پر اس نے ایک تنظیم رجسٹر کرائی جس کا نام ہے “COMPREHENSIVE DISASTER RESPONSE SERVICES” (CDRS) جس میں درد دل رکھنے والے پاکستانی بھی شامل ہیں۔CDRSاس وقت دو زچہ بچہ میڈیکل سنٹرز چلا رہی ہے۔یہ تنظیم 2016تا 2019تک 200سے زیادہ پینے کے صاف پانی پراجیکٹس مکمل کر چکی ہے۔آزاد کشمیر میں دو سکول چلا رہے ہیں اور بیوائوں کیلئے گھر، یتیم بچیوں کی شادی، خواتین کے لئے ٹریننگ سنٹرز علیحدہ۔ CDRSیوتھ پروگرام کے پورے پاکستان میں 23چیپڑرز کیونکہ TODDکے نزدیک پاکستانی یوتھ کو درست سمت میں درست تربیت مل جائے تو یہ معجزے دکھا سکتی ہے۔نوٹ:میں TODDکے سٹاف عبید کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے یہ ساری معلومات میرے ساتھ شیئر کیں تاکہ میں اس شخص کو خراجِ تحسین پیش کر سکوں جو پاکستان اور پاکستانیوں سے نہ صرف محبت کرتا ہے بلکہ عملاً بھی ان کیلئےبہت کچھ کر رہا ہے۔آخر پر صرف اتنا کہنا ہے کہ……”EMOTION WITHOUT ACTION IS IRRELEVANT”کاش یہ جملہ ہمارے سیاستدانوں بالخصوص حکمرانوں کو بھی سمجھ آ جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply