منظور پشتین؛پشتونوں کا مسیحا/رشید یوسفزئی

پیدائش25 اکتوبر 1996,عمر 28 اور 29 سال کے درمیان، جائے پیدائش،پاکستان۔۔ بلکہ شاید ایشیا ءکے پسماندہ ترین، بدقسمت جنگ زدہ علاقوں میں سے ایک “سروکئی”، وزیرستان۔ والد عبدالودود صاحب ایک معمولی سرکاری سکول ٹیچر ۔ یہ آج کی  دنیا کے سب سے زیادہ مشہور و مقبول ہیومن رائٹس علمبردار منظور پشتون کا تاریخی و علاقائی محل وقوع ہے۔

سفر ِزندگی !

سولہ سترہ سال  کی عمر تک چار دفعہ آرمی و طالبان کی نوراکشتی میں نقل مکانی و پناہ گزینی پر مجبور ہوتا رہا۔ وزیرستان کی کاٹتی ہوئی  سردی میں غریب ماں باپ اور سات بہن بھائیوں کے ساتھ کئی کئی راتیں خالی پیٹ ڈی آئی خان اور بنوں کے پناہ گزین کیمپوں تک کبھی پیدل، کبھی خستہ حال فلائنگ کوچوں، ڈاٹسنوں اور منی ٹرکوں کا سفر کرتارہا۔ اسی در بدری اور بے خانمانی میں بنوں، کرک اور ڈی  آئی خان میں تعلیم حاصل کی  اور ڈی وی ایم کی ڈگری لی۔ 2009 میں جبری نقل مکانی میں ڈی آئی خان آرہا تھا۔ چیک پوسٹ پر ملٹری والے چند دوسرے نقل مکانی کرنے والی  پشتون عورتوں سے بدسلوکی کر رہے تھے۔ منظور نے احتجاج کیا، ملٹری والوں نے پکڑ کر 14,15سالہ منظور پر ایسا  تشدد کیا کہ اردگرد کھڑی  عورتوں کے آنسو نکل  آئے۔

لڑکپن سے عنفوانِ شباب تک اردگرد جہاں بھی نظر دوڑائی۔ پشتونوں کی حالت زار  بدتر نظر  آئی۔ طالبان کی خونریزی دیکھی، ان مقدس درندوں کی دہشتگردی و بدمعاشی اور قتل و غارت دیکھی۔ مقدس وردی والوں کی بربریت دیکھی۔ چیک پوسٹوں، بلکہ اپنے گھروں میں پشتون دوشیزاؤں، ماؤں بہنوں کو بے عزت ہوتے، خوددار پشتون نوجوانوں کو سڑکوں  اور چیک پوسٹوں پر دنیا جہان کے سامنے غیر پشتون سپاہیوں کے نادرشاہی حکم سے مرغا بنتے اور مینڈک بنتے دیکھا، معزز پشتون بزرگوں کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈوں کے ساتھ ہاتھ اٹھائے، قطاروں میں ذلیل ہوتے دیکھا۔ دھماکوں میں گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ ہوتے دیکھے۔ آپریشنز کے نام سے مقامی غیرت مند مٹی سے تعمیر شدہ غریب پشتونو ں کے پیارے پیارے گھر مسمار ہوتے دیکھے۔ وسیلہ رزق اور کاروبار تباہ ہوتے دیکھے۔ پشتونوں کی لاشیں، عورتوں کی چھاتیاں، جوان مرگ زلمیوں کے کٹے بازو اور ٹانگیں ہوا میں اُڑتے دیکھے  اور ملک کے سیاہ و سفید پر قابض ان سب  کے اصل باعث اور مجرم بھی فرعونیت، تکبر، نخوت اور دبدبے کے ساتھ بے پروائی سے عیش کرتے دیکھے۔ عام آدمی کنفیوز یا خائف تھا۔ لالچ زدہ اور مصلحتوں کے مارے ہوئے لیڈروں کی  زبانوں پر تالے تھے  یا وہ مجبور تھے، یا خوف زدہ۔۔ یا اقتدار کی ہوس غالب تھی۔ تاہم یہیں ایک نوجوان منظور پشتون نہ کنفیوز تھا، نہ خوفزدہ۔۔ حوصلہ نہیں ہارا، ضمیر کی للکار نہیں دبائی، جرات اور بڑھی۔۔سیکھا، مشاہدہ و تجزیہ کیا، تجربہ کیا۔ل۔ ہر سو جرائم نوٹ کئے۔نتیجہ یہ اخذ کیا کہ پُر امن مزاحمت، پشتونوں کی بیداری اور اتحاد ہی واحد حل ہیں ،آواز اٹھائی۔ پشتونوں کی بیداری کا مشن سر پر لیا۔گھر گھر، گاؤں گاؤں، شہر شہر اپنی دعوت لے کے گیا۔ ایک بار اسی پشتون بیداری کی گشت میں 14 مہینے مسلسل گھر سے دور رہا۔ فروتنی، نرم گوئی، جرات، خلوص، جذبہ اور فہم و فراست سے مسلح ہے۔ جہاں بڑے بڑے سیاسی گرگ ناکام رہے,منظور سرخرو رہا۔

دو سال قبل کی بات ہے، رمضان کی ایک رات منظور گھر تشریف لائے تھے۔ تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ ایک مذہبی پارٹی کے سربراہ عمرے پر تھے، رابطہ ہوا۔ دو تین باتوں کے بعد کہا میں فلاں دن عمرے سے واپس آرہا ہوں۔ کسی طریقے سے منظور کو مطمئن کریں کہ مبارک دینے کے  بہانے میرے گھر آئے۔۔ مجھے حیرت ہوئی۔ ایک دو سوال کئے۔۔۔ کہنے لگے، “رشید خان، واللہ جو سیاسی جماعتیں سو سال میں نہ کر سکیں،منظور نے دو تین سالوں میں کر دکھایا”۔

چند دنوں سے دیکھ رہاہوں کچھ اپنے ہی منظور کے کار ہائے نمایاں بارے سوال کر رہے ہیں۔ل۔ (اس تحریر میں مَیں اپنوں سے مخاطب ہوں اور کسی کی دل آزاری قطعاً مقصود نہیں۔ روئے سخن کسی جانب ہو تو رو سیاہ) ۔ اور یہ ناہنجار اپنے جن کو منظور کے جرات و استقلال کے صدقے عزت کی زندگی ملی  آج منفی پروپیگنڈہ کرکے بطور مثال کبھی بلوچ سردار کی قربانی ،تو کبھی کسی اور انقلابی یا نیشنلسٹ لیڈر کی اور منظور کی قربانیوں اور استعداد پر طنز کر رہے ہیں ۔ موزانہ اگر باعثِ دلآزاری نہ ہو تو موزانہ کریں۔ ملک کے  تمام موجودہ بزرگ لیڈرز کی عمریں منظور کے والد عبدالودود استاد سے زیادہ ہیں، مگر بیرونی دنیا میں ان کی شہرت و مقبولیت منظور کے سامنے ہیچ ہیں۔ ملک کی نوخیز لیڈرشپ ایک طویل سیاسی و خاندانی سرمائے کی وارث ہے۔ مریم نواز جس کو آئندہ حکومت میں ہر حال میں وزیراعظم بنانے کیلئے مولانا فضل الرحمن آج ہی سے پی ڈی ایم کے نام سے الیکشن کیمپین چلا رہے ہیں، کی تاریخ پیدائش 28 اکتوبر 1973 ہے۔ سبق Convent of Jesus and Mary کے بعد کیمبرج یونیورسٹی میں پڑھی ہے۔ عمر منظور کی ماں سے چند سال زیادہ ہے۔ بلاول زرداری صاحب کی تاریخ پیدائش 21 ستمبر 1988 ہے۔ سبق لندن میں کرائسٹ چرچ Christ Church اور اسکے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھی ہے۔۔ ہمارے اپنے ایمل اسفندیار صاحب جو سونے کا نہیں بلکہ زمرد کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئے ان کی تاریخ پیدائش 1986، تعلیم حاصل کی ایچی سن میں۔ مکرر عرض ہے کہ میں ان سے منفی موازنہ نہیں کر رہا۔ ان سب کے برعکس منظور پشتون کی  عمر کیا ہے؟۔ خاندان میں دور دور تک کوئی وزیر و بیوروکریٹ کیا، کونسلر یا سترہ گریڈ افسر تک نہیں۔ تعلیم کیلئے اس ظالم ریاست اور سفاک ماحول و حالات نے موقع کب دیا۔ وژن اور جرات اور مقبولیت  دیکھیں دھمکیوں سے نہیں ہارا۔ ہتھکڑیوں سے نہیں ڈرا، ریاستی پروپیگنڈہ مشینری کے الزامات اور گالیوں کو خاطر میں نہیں لایا  اور اچیومنٹس،آپ اور مجھے زبان دی۔ جرات بخشی، آواز اور نعرہ دیا، عزت دی اور عزت سے زندگی دی،آج پختون خوا میں ایک چیک پوسٹ نہیں۔ آج طاقتور ادارے آئی جی سندھ کو اٹھا سکتے ہیں۔ پنجاب کے استاد اور جج اور وکیل کو اٹھا سکتے ہیں۔ بلوچستان کے ایم پی اے اور وزیر کو غائب کرسکتے ہیں، مگر ایک پشتون ریڑھی بان اور مزدور کو ہاتھ لگاتے ہوئے ہزار بار سوچیں گے۔ یہ منظور پشتون کی اچیومنٹس میں سے صرف ایک دو ہیں۔

آج دنیا اس 26 سالہ نوجوان کو پاکستان کے کسی بھی سیاسی و سماجی لیڈر سے زیادہ جانتی اور تسلیم کرتی ہے۔ آج آپ کے سابق و حالیہ وزرائے اعظم سے باہر کی دنیا بے خبر ہے۔آپ کے طاقتور ترین آرمی چیف کو باہر دنیا کے دو صحافی بمشکل جانتے ہوں گے،لیکن منظور پشتون کا نام ایک جرات و استقلال کا استعارہ بن گیا ہے۔آج منظور پشتون کا انسانی حقوق کا ایک سمبل بن گیا ہے۔آج منظور پشتون کا نام ایک برانڈ بن گیا ہے ،عرصہ قبل منظور پشتون کو اس فاشسٹ ریاست نے ہتھکڑیاں لگائیں۔ دنیا احتجاج کیلئے اٹھی۔ میرے موبائل میں محفوظ سینکڑوں سکرین شاٹس منظور کیے، گرفتاری پر عالمی خبررساں اداروں اور کویت ٹائمز سے لیکر نیویارک ٹائمز تک عالمی اخبارات کی  شہ سرخیاں ہیں۔ دنیا کے کونسے لیڈر کی قسمت میں ایسی شہرت و مقبولیت  آئی ہے؟ ۔منظور کا نام اتنا پھیل گیا ہے کہ ہر جگہ مقامی تلفظ اختیار کر گیا۔ مصر و اردن کے عربی اخبارات میں “منظور البشتین” کے نام کی شہ سرخیوں کے ساتھ اس کی  تصاویر ابھی بھی میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے ایران کے فارسی اخبار “روزنامہء جمہوری اسلامی” نے نام کے پس و پیش غلط کرکے شہ سرخی لگائی تھی۔ “آقائے پشتون احمد منظور رہبر حقوق بشر در پاکستان دستگير شد”۔ یہ مقبولیت و شہرت بے وجہ نہیں،بے مثال ضرور ہیں۔
منظور پشتون باہر دنیا میں میری اور آپ کی شناخت بن گئی ہے۔ وہ جو فلسطینی شاعر محمود درویش نے “بطاقۃ الہویہ” یا Identity Card نظم لکھا تھا کہ “سجل۔ انا عربی ۔” وہی” بطاقۃ الہویہ” آج پشتون کیلئے” سجل انا منظور” اور منظور پشتون کا ہم قوم ہونا ہے۔آج باہر کی دنیا خود ہمیں منظور پشتون والا  جدید و طاقتور سمارٹ کارڈ دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بنگالی ادیب و نقاد سے گفتگو ہو رہی تھی۔ تعارف میں کہا پشتون ہوں۔ فوراً مسکراتے ہوئے استفہامیہ انداز میں کہا۔ اوکے اوکے یو آر فالور آف منجور پشتین! “۔ یاد رکھیں منظور حال میں بھی امر ہے اور مستقبل میں بھی۔۔۔ لٹریچر میں بھی اور تاریخ میں بھی۔
یہ نام اور کام واقعی معجزہ لگتا ہے۔آپ نہیں مطمئن تو پھر آپ کو کوئی نیٹشے والا سپرمین Superman یا یونانی دیومالا Greek Mythology والا ہرکولیس چاہیے ہوگا۔ ہم ایسی مجنونانہ خبط اور غیر حقیقی آئیڈیل زم کے شکار نہیں۔ ہم انسان ہیں  اور بطور انسانی لیڈر منظور کے کام و نام سے مطمئن۔۔ منظور نہ کسی بوڑھے سیاست دان سے قابل موازنہ ہے، نہ کسی اور سماجی سورما سے  منظور آپ ہیں ، منظور میں ہوں۔ منظور پشتون قوم ہے۔ منظور ہماری تاریخ، غیرت اور ثقافت ہے۔۔ منظور ہمیں منظور ہے  اور بس۔

کئی ایک برخود غلط، تعصب یا غلط فہمی کے شکار ڈیجٹل لوز موشن Digital Loose Motion کے مریض معروضی حقائق سے آنکھیں چرا کر منظور بارے مسلسل منفی سوال اٹھاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں آپ کی عمر یا تو منظور کے برابر ہے یا زیادہ۔۔ معاشی، سماجی و تعلیمی مواقع آپ کو منظور سے ہزار بار بہتر ملے ہیں۔ آپ خود کا  منظور سے موازنہ کریں۔ پہلے کچھ نہیں کرسکیں ۔۔ بسم اللہ کریں آگے آئیں۔ آج اپنے جوہر دکھائیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

پشتونوں اور پی ٹی ایم میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگر ہے تو قطعاً درخور اعتنا نہیں۔ خلوص والا بندہ ناراض ہوکر مخالف سمت نہیں جاتا۔ یہ کچی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ ذہنی بلوغت والے سنجیدہ لوگ ناراض ہوکر عالمی حجروں میں گالیاں نہیں دیتے۔ خاموشی سے ایک سائڈ پر چلے جاتے ہیں۔ ہاں ایک دو واقعی سنجیدہ مخلص ساتھی اگر سوشل میڈیا پر اختلاف کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو محبت اور خلوص سے راضی کرنا ہے۔ گالیاں اور طنز و طعنے جواب نہیں۔۔ نہ منظور کا طرز عمل ہے نہ ان کے پیروکاروں کا۔ جو قابل قدر ساتھی ناراض ہیں۔ ان کو راضی کریں۔ ان پر جرگہ کریں۔۔ ان کی منت کریں۔۔ یاد رکھیں عاجزی، محبت اور خلوص انسانی رشتوں میں درپیش ہر ناخوشگوار رکاوٹ کا حل ہے۔ جہاں محبت اور انکساری ناکام ہو تو سمجھیں کہ آپ کے خلوص میں فرق ہے۔ جہاں محبت خلوص اور عاجزی کا نسخہ ناکام ہو اس کا ایک ہی حل ہے: خلوص اور محبت کی ڈوز dose اور زیادہ کریں۔
موبائل پر جلدی جلدی لکھ رہا ہوں۔ خیالات کا  ہجوم ہے اور منطقی ترتیب و تسلسل ممکن نہیں۔۔ ایک دو اور نکات عرض ہیں۔ قومی اتفاق اور اتحاد ایک اجتماعی کوشش اور ایک ارتقائی عمل ہے۔ مقبولیت وقت کے تابع ہوتی ہے۔ تاہم یہاں بھی منظور ملکی سطح کے تمام لیڈرز سے آگے ہیں۔۔ پشتونوں کی قابل قدر تعداد جمع کی۔ عام آدمی سے لیکر طالب علم، استاد و دانشور تک ساتھ ملائے۔ اور آپ کے علم میں ہوگا یتیم و بیوہ عورتوں نے سلائی مشین چلا کر چند ٹکے کمائے اور منظور پشتون کو تحریک کیلئے چندہ دیا۔ مقبولیت دیکھیں۔۔ پشتون دوشیزاؤں کے تازہ و نوجوان لبوں پر منظور کیلئے ٹپے سجے  ہیں۔پوری قوم اس کے لئے گیت اور سندرے گارہی ہیں۔۔ ایک مثال عرض ہے۔ مسحورکن آواز و انداز کے مالک پشتون سنگر کرن خان نے بہت اچھے اور معروف شعرا کی  غزل گائی۔۔۔ چند مہینے قبل انہوں نے ایک گمنام شاعر کی غزل گائی۔ اس غزل کا ایک شعر منظور بارے ہے کہ:
باچا دغہ سڑے د فرعونیت خلاف را اوتی
د زڑہ پہ سلطنت کی مقرر ئ کڑم کہ نہ
جناب یہ شخص وقت کے فرعون کے خلاف اٹھا ہے۔ بتاؤ اسے دل کا مالک بناؤں۔۔
آج یو ٹیوب پر دیکھ رہا تھا۔ یہ غزل پشتو کے نامور تمام شعراء کے گائے  گانوں  سے ہزار گنا زیادہ مقبول ہوگئی ہے۔ منظور بارے اسی ایک شعر کے صدقے یہ غزل ملینز کے حساب سے لوگوں نے سنی ہے۔ اس سے بڑھ کر مقبولیت کیا ہوسکتی ہے؟

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply