آزاد کشمیر کے باسیو۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

کشمیر اس وقت ایک سلگتا انگارہ بن چکا ہے جو ایک طرف تواسی بھارت کے ہاتھ جلا رہا ہے جو اس کو سلگانے کا سبب ہے،تو دوسری طرف ہر پاکستانی کا دل جل کر خاکستر ہوچکا ہے۔ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کو بھارت کے جابرانہ کرفیو میں محصور ہوئے 36، 37 دن گزر چکے ہیں۔ بازار، دکان، اسکول، کالج، اسپتال غرضیکہ ہر طرح کی انسانی سرگرمی کے مراکز کو بند کر دیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ سمیت وادی کا بیرونی دنیا کے ساتھ ہر طرح کا رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے۔ وہ بچے جن کے والدین وادی میں محصور ہیں اور وہ خود کسی اور جگہ ہیں یا وہ والدین جو خود کسی اور جگہ ان کے بچے وادی میں محصور ہیں ،سبھی رنج تکلیف اور اذیت کے کوہ گراں سے نبرد آزما ہیں۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو خدشہ ہے کہ عنقریب غذائی قلت اور بیماروں کے لئے طبی سہولیات کی مسلسل عدم فراہمی کے باعث خدانخواستہ کوئی بڑا انسانی المیہ بھی جنم لےسکتا ہے۔ بھارت کے موجودہ فاشسٹ مودی سرکارکے اس بدترین ریاستی استبداد کا شکار نہ صرف سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق جیسے محبّان پاکستان، یاسین ملک جیسے مطلقًا آزادی کے علمبردار ہیں بلکہ ساتھ ساتھ وہ سیاستدان بھی ہوئے جو آج تک بھارت کے ساتھ وفاداری کا دم بھرتے نظرآتے رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آزادی پسند کشمیری عوام کے جذبات کو اپنی سیاست کے بدمست قدموں تلے روند کر مسند اقتدار پر براجمان ہو کر اقتدار کی غلام گردشوں کے مزے لوٹے، لیکن ہوا کیا کہ آج وہی ہوس اقتدار کے مارے ہوئے لوگ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کادو قومی نظریہ نہ صرف اس وقت ا یک مسلّمہ حقیقت تھا بلکہ آج بھی وہ حقیقت اپنی اسی سفاکیت کے ساتھ اپنے خون آلود پنجےتیز کیے، خون آشام ہندو انتہاپسندی کی شکل میں زندہ جاوید ہے۔

بی جے پی اور نریندر مودی اور ان کی سرکار کے اراکین ِ پارلیمنٹ جن کی مسلم دشمنی نے ان کے حواس مختل کر دئیے ہیں ، کبھی اسمبلی کے فلور پر اپنے نوجوان لڑکوں کو “کشمیری گوریوں” کے خواب دکھانا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی جھیل ڈل کے کنارے زمین برائے فروخت کےاشتہارات انڈین سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہیں، ان سب عوامل نے مل کر بھارت کو ایک ایسی انتہاپسند ریاست کے طورپر دنیا کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا ہے کہ دنیا جو بھارت کی نسبتًامضبوط معاشی صورتحال، ایک بڑی عالمی منڈی ہونے کےناطے اور ان کی کامیاب سفارت کاری کے بل پر مسئلہ کشمیر کو مکمل سردخانے میں ڈالے ہوئے تھی ایک بار پھر مودی سرکار کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے یہ مسئلہ دوبارہ سے عالمی سطح پر ناصرف اجاگر ہوا ہے بلکہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیاہے۔

اس سارے منظر نامے میں خود کشمیری عوام مرکزِ نگاہ بنے ہوئے ہیں کشمیری آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب ہندوستانی استبداد کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی جدوجہد، ان کی اولوالعزمی اور جوانمردی کے مظاہرے تو دنیادن رات دیکھ رہی ہے، باوجود اسکے کہ وہ مکمل طور پر ہندوستانی پنجہء استبداد میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ہم کشمیری جو آزاد کشمیر اور پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، ہماری طرف سے تمام عالم کو کیا پیغام جاناچاہیے؟؟ میری نظر میں سب سے اہم پیغام جو ہم اقوا م عالم کودے سکتے ہیں، وہ اتحاد، یگانگت اور پاکستان کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی ہے۔ ہمارے ایک محترم بزرگ جو خود بھی کشمیری ہیں اور کشمیری سیاست پر گہری نگاہ بھی رکھتے ہیں
ان کے مطابق اس وقت انڈین حکومت کی موجودہ جابرانہ پالیسیوں کے بعد آزاد اور مقبوضہ کشمیر کی عوام کی نظر میں انڈیا کے ساتھ الحاق تو بالکل خارج از امکان ہے۔

ہمارے پاس دو آپشنز ہیں الحا ق پاکستان یا پھرخود مختار ریاستِ جموں و کشمیر،لیکن ہم ان میں سے کوئی بھی ایک آپشن اختیار کرنے کی حالت میں اس وقت تک نہیں آ سکتے جب تک کہ ہمیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق نہیں مل جاتا۔ ہمیں اس وقت آزاد کشمیر کی سطح پر خودمختار کشمیر جیسے گمراہ کن پروپیگنڈا کو چھوڑ کر صرف اور صرف مقبوضہ کشمیر کے عوام  کیلئےاستصواب رائے کا حق مانگنے پر پوری توجہ مبذول کرنی ہوگی ،اگر لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف موجود کشمیری باشندے یہ حق حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اختیار سوفیصد ان کے اپنے ہاتھ میں ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کشمیر کی ایک بیٹی ہونے کے ناطے میری آزادکشمیر کے باسیوں سے  گزارش ہے کہ اس وقت اپنی سیاسی دکان چمکانے کا وقت نہیں یہ وقت صرف اور صرف اتفاق اتحاد اور یگانگت کے زور پر مقبوضہ کشمیر کے ظلم کی چکی میں پستے اپنے بہن بھائیوں کو ایک مضبوط کندھا فراہم کرنے کا ہے۔ اللہ پاک میرے مسلمان بھائیوں کا حامی و ناصر ہو۔۔

 

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply