مال و دولت ہی مقدم ہے۔۔مرزا مدثر نواز

وہ پانچ بھائی اور ایک بہن ہیں ،جن کا آبائی گھر ایک مہنگے ترین علاقے میں واقع ہے۔ ان کے والد نے اپنی زندگی میں ہی سب سے کہا کہ میرے لیے تمام اولاد برابر ہے اور میں کسی کی طرفداری نہیں کرتا، لہٰذا تم میں سے کوئی ایک جو استطاعت رکھتا ہے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے دوسرے بھائیوں کو ان کے حصے کی رقم دے کر یہ مکان اپنے نام کروا لے۔ تمام بھائیوں نے اس فیصلے سے اتفاق کیا ،بجز ایک کے‘ جس نے اپنے حصے کی رقم بھی وصول کر لی لیکن اس کے بعد اپنی ساری فیملی سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ماں باپ اپنے اس بیٹے کی صورت دیکھنے کی تمنا لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے‘ بڑا بھائی بھی پردہ فرما گیا لیکن اس نے ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا اور اپنی فیملی سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی اور آج تک کسی بھی خوشی یا غمی کے موقع پر خون نے جوش نہیں مارا۔

زندگی کتنی مختصر ہے اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ کیا زندگی صرف مادہ پرستی‘ عیش و عشرت‘ کھانے پینے‘ ایک دوسرے کے اوپر سبقت لینے اور مال و زر اکٹھا کرنے کا نام ہے؟ حتّیٰ کہ ہم قبروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ مال و دولت ہی کو ہم نے اپنا کعبہ و قبلہ بنا لیا ہے جس کے سامنے رشتے و تعلقات کوئی معانی نہیں رکھتے۔ معمولی اختلافات کو سینے میں دبائے ہم ساری زندگی حتّیٰ کہ مرنے پر بھی ایک دوسرے کا منہ دیکھنا گوارہ نہیں کرتے اور تمام حقوق و فرائض کو اپنی اَنا کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ مال و دولت و امارت پسندی کی تمنا ایک جائز و ضرورت کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن صرف اسی میں مگن ہو کر مقصد ِ حیات کو فراموش کر دینا اور اس کی خاطر تمام حدوں سے تجاوز کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ ہمارے مرشد جناب رسول اللہﷺ نازو نعمت‘ تکلف و عیش پرستی کو کس حد تک نا پسند فرماتے تھے‘ آئیے ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔

ایک دفعہ آپ کسی غزوہ میں تشریف لے گئے‘ حضرت عائشہؓ رہ گئیں‘ لڑائی سے واپس تشریف لائے اور حضرت عائشہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ گھر میں چھت گیر لگی ہوئی ہے اسی وقت پھاڑ ڈالی اور فرمایا کہ خدا نے ہم کو دولت اس لیے نہیں دی ہے کہ اینٹ پتھر کو کپڑے پہنائے جائیں۔ ایک انصاری نے ایک مکان بنوایا جس کا گنبد بہت بلند تھا‘ آپ نے دیکھا تو پوچھا کس نے بنایا ہے‘ لوگوں نے بتایا‘ آپ چپ ہو رہے ،جب وہ حسبِ  معمول خدمت ِ اقدس میں آئے اور سلام کیا تو آپ نے منہ پھیر لیا‘ انہوں نے پھر سلام کیا‘ آپ نے پھر منہ پھیر لیا‘ وہ سمجھ گئے کہ ناراضی کی کیا وجہ ہے۔ جا کر گنبد کو زمین کے برابر کر دیا۔ ایک دن آپﷺ بازار میں نکلے تو گنبد نظر نہ آیا‘ معلوم ہوا کہ انصاری نے اس کو ڈھا دیا۔ ارشاد فرمایا کہ ”ضروری عمارت کے سوا ہر عمارت انسان کے لیے وبال ہے“۔مہر کرنے کی غرض سے جب آپ نے انگوٹھی بنوائی تو پہلے سونے کی بنوائی، آپ کی تقلید میں صحابہؓ نے بھی زریں انگوٹھیاں بنوائیں‘ آپ منبر پر چڑھے اور انگوٹھی اتار کر پھینک دی اور فرمایاکہ ”اب نہ پہنوں گا“۔ صحابہ نے بھی اسی وقت اتار کر پھینک دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب یمن سے شام تک صرف اسلام کی حکومت تھی‘ فرمانروائے اسلام کے گھر میں صرف ایک کھری چارپائی اور چمڑے کا سوکھا ہوا مشکیزہ تھا۔ حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جب آپ نے وفات پائی تو تھوڑے سے جَو کے سوا گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ”دنیا میں انسان کے لیے اتنا کافی ہے جتنا ایک مسافر کو زادراہ کے لیے“۔ ایک دفعہ ایک بوریے پر آرام فرما رہے تھے اٹھے تو لوگوں نے دیکھا کہ پہلوئے مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں‘ عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم لوگ کوئی گدا بنوا کر حاضر کریں‘ ارشاد ہوا کہ مجھ کو دنیا سے کیا غرض؟ مجھ کو دنیا سے اس قدر تعلق ہے جس قدر اس سوار کو جو تھوڑی دیر کے لیے راہ میں کسی درخت کے سایہ میں بیٹھ جاتا ہے پھر اس کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ایلاء کے زمانہ میں حضرت عمرؓ جب مشربہ میں جو اسباب کی کوٹھڑی تھی حاضر ہوئے تو ان کو نظر آیا کہ سرور عالم کے بیت اقدس میں دنیاوی سازو سامان کی کیا کیفیت ہے؟ جسم مبارک پر صرف ایک تہبند ہے ایک کھری چارپائی بچھی ہے‘ سرہانے ایک تکیہ پڑا ہے جس میں خرمے کی چھال بھری ہے‘ ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے ہیں‘ ایک کونے میں پائے مبارک کے پاس کسی جانور کی کھال پڑی ہے‘ کچھ مشکیزہ کی کھالیں سر کے پاس کھونٹی پر لٹک رہی ہیں‘ یہ دیکھ کر حضرت عمر کہتے ہیں کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے‘ آپ نے رونے کا سبب دریافت فرمایا‘ عرض کی یا رسول اللہ! میں کیوں نہ روؤں‘ چارپائی کے بان سے جسم اقدس میں بدھیاں پڑ گئی ہیں‘ یہ آپ کے اسباب کی کوٹھڑی ہے‘ اس میں جو سامان ہے وہ نظر آ رہا ہے‘ قیصر و کسریٰ تو باغ و بہار کے مزے لوٹیں اور آپ خدا کے پیغمبر اور برگزیدہ ہو کر آپ کے سامان خانہ کی یہ کیفیت ہو‘ ارشاد ہوا کہ ”اے ابن خطاب! تم کو یہ پسند نہیں کہ وہ دنیا لیں اور ہم آخرت“۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply