ریٹنگ کا تھپڑ

قانونِ فطرت ہے ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے کچھ ایسا ہی کراچی نادرہ آفس میں ایک چینل کی خاتون اینکر کو باوردی سنتری کی جانب سے تھپڑ مارنے کے واقعہ میں ہوا۔ واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا سے ہوتی ہوئی مین اسٹریم میڈیا تک پہنچی اور ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا کسی نے خاتون اینکر کو قصور وار ٹھہرایا کسی نے ایف سی (فرنٹئیر کانسٹیبلری) اہلکار کو۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ باوردی ایف سی اہلکار نے خاتون پر ہاتھ اٹھا کر اپنے اخلاقی دیوالیہ پن کا ثبوت دیا اور غیر مہذب حرکت کی بلکہ جرم کا ارتکاب بھی کیا ہماری معاشرتی اور اخلاقی اقدار قطعی ایسی شرمناک حرکت کی اجازت نہیں دیتیں۔
اب سوال ہے کہ اس واقعہ کے محرکات کیا ہیں جو ایسا واقعہ پیش آیا۔ متاثرہ خاتون اینکر محترمہ صائمہ کنول صاحبہ کا انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا جس مین خاتون نے فرمایا کہ “ہمیں شکایات موصول ہورہی تھیں کہ نادرہ سینٹر میں سائلین کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا خواتین کے ساتھ بہت زیادہ بدتمیزی کرتے ہیں جس کا وہ نشریاتی تقاضوں کی وجہ سے بتا بھی نہیں سکتیں خواتین نے انہیں دیکھتے ہی آہ بکا شروع کردی شکایت بتانے لگیں اور ایک خاتون نے بتایا کہ اس کے شوہر کو اس کے سامنے طمانچے بھی مارے گئے۔ ایف سی اہلکار ان کے سامنے خواتین کے بال کھینچ کر اور دھکے مار کر گیا تھا، خواتین کو گھور رہا تھا ۔ خاص کر انہیں اور بحیثیت خاتون اپنے سامنے ایک دوسری خاتون کی بے حرمتی ہوتے ہوئے دیکھوں گی اور ایک نہیں دو نہیں کئی عورتوں کیساتھ اور اس میں زیادہ تر ضعیف خواتین شامل ہیں تو کون سا قانون کہتا ہے کہ میں اپنی انسانیت چھوڑ دوں، کیا میں انسان نہیں ہوں؟ اور مزید یہ کہ ریکارڈنگ کے دوران ایف سی اہلکار نے آؤ دیکھا نہ تاؤ آتے ہی کیمرہ مین کو زدوکوب کیا اور کیمرہ توڑنے کی کوشش کی”۔ خاتون اینکر کی انسانیت جاگی بھی تو کیمرہ کے سامنے۔ خیر ہر انٹرویو میں متاثرہ خاتون اینکر اسی قسم کی کہانی سناتی نظر آتی تھیں۔
سامنے آنے والی ویڈیو دیکھیں تو خاتون اینکر ہر شو میں جو کہانی سناتی رہیں اس میں ان باتوں کی تصدیق نہیں ہوتی کہ گارڈز کی جانب سے خواتین کے بال کھینچے گئے اور کیمرہ مین کو زدوکوب کیا، ویڈیو میں صاف نظر آتا ہے اہلکار پیچھے سے آیا اور ریکارڈنگ سے منع کیا جبکہ خاتون اینکر تضحیک آمیز لہجے میں اپنے میڈیا پرسن ہونے کا اہلکار پر رعب ڈال رہی ہیں اس کے بعد گارڈ جاکر اپنے ساتھی کے ساتھ کھڑا ہوگیا خاتون اینکر پیچھے گئیں اور ایف سی اہلکار کو فرمانے لگیں “او تمہیں شرم نہیں آتی”؟ حالات کی نزاکت کو بھانپ کر اہلکار نے وہاں سے جانے کی کوشش کی تو خاتون اینکر نے راستہ روک کر کہا “تمہارے گھر ماں بہن نہیں ہے”؟ اور مائیک میں بات کرنے پر مجبور کیا اہلکار آگے بڑھا لیکن پیچھے سے خاتون اینکر نے اس کی وردی کھینچی ایف سی اہلکار پلٹا خاتون اینکر مسلسل اس پر جملے کس رہیں تھیں اتنے میں اہلکار نے تھپڑ ماردیا۔
وردی کھینچنے کے سوال پر خاتون اینکر کہتی ہیں وہ چیک کررہیں تھیں کہ وہ پرائیوٹ گارڈ ہے یا کسی ادارے سے ہے قانونی طور پر کسی کے پاس اختیار نہیں کہ وہ باوردی اہلکار کی وردی کھینچے چاہے اس کا بیج چیک کرنے کیلئے ہی کیوں نہ ہو یہ جرم ہے بہت سے ممالک میں اس پر سخت سزائیں بھی موجود ہیں۔
دیکھا جائے تو اس سارے واقعہ میں دونوں طرف تربیت اور اخلاقی اقدار کا شدید فقدان نظر آتا ہے باوردی سنتری کو یہ حق نہیں کہ مرد ہو یا عورت وہ انہیں زدو کوب کرے مگر یہ حق کسی میڈیا اینکر پرسن اور رپورٹر کو بھی حاصل نہیں کہ آزادی صحافت کی آڑ میں کیمرہ اور مائیک لیکر کہیں بھی گھس جائیں اور لوگوں کی تذلیل کریں ایف سی اہلکار کے تھپڑ مارنے کے شرمناک فعل کا کسی صورت دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ویڈیو فوٹیج اور خاتون اینکر کے انٹرویوز دیکھنے کے بعد میری یہ رائے ہے خاتون اینکر نے جو کیا ریٹنگ کیلئے کیا اور وہ انہیں مل بھی گئی خاتون اینکر کو تھپڑ کانسٹیبل آن ڈیوٹی نے نہیں “ریٹنگ” نے مارا۔ علاقائی چینل کی خاتون پرسن جس کے نام سے پاکستان واقف نہیں ان پر نیشنل میڈیا پر ٹاک شوز ہوئے، پرائم ٹائم میں انہیں جگہ ملی، تمام چینلز نے انٹرویوز کئے اور ہر انٹرویو میں خاتون اینکر خود کو انتہائی پروفیشنل اور مقبول اینکر ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ لیکن یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں ریٹنگ کیلئے اینکرز اور رپورٹرز کیا نہیں کرتے۔ خبر نہیں ملتی تو خبر بناؤ چاہے خود خبر بننا پڑے، کبھی خالی قبر میں لیٹ کر لائیو رپورٹنگ، کبھی زخمیوں کو روک کر پوچھتے آپ نے کیا دیکھا؟ یا کسی بھی دفتر،ہسپتال، ادارے میں بغیر اجازت گھس جاؤ یا پھر بیٹے کی میت پر بین کرتی ماں سے سوال کہ آپ کیسا محسوس کررہی ہیں؟ دوسروں کو اقدار، اخلاقیات، خود احتسابی کا درس دینے والا میڈیا خود کتنا اس معیار پر پورا اترتا؟ دھماکے دار سنسنی خیز خبر سب سے پہلے سب سے آگے کی دوڑ میں جھوٹ ہے، سچ ہے، ہماری بلا سے۔ بریکنگ نیوز ہونی چاہئے، ریٹنگ کے لئے تہذیب، اخلاقیات، اقدار اور کلچر کا جنازہ نکلتا ہے تو نکلے، ہماری بلا سے۔لیکن جب میڈیا سے ان کی نالائقی اور غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ اور صحافت پر احتساب کیا جاتا ہے تو آزادی صحافت خطرے میں آجاتی ہے۔
میڈیا ہاؤسز کو اپنے اینکرز اور رپورٹرز کی تربیت کیلئے کام کرنا ہوگا فیلڈ رپورٹرز اور اینکرز کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی اپنے لوگوں کو صحافتی اقدار و اخلاقیات کا سبق پڑھائیں ریٹنگ پر نہیں معیار پر توجہ دیں حدود کا تعین کریں ورنہ ایسے کئی تھپڑ کھانے کیلئے تیار رہیں۔

Facebook Comments

محمد بن کامران
سیکورٹی ایڈوائزر مڈل ایسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply